Thursday, 5 September 2019

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

*آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر*
تاریخ طب کی معروف کتاب طبقات الاطباء کے مولف ابن ابی اصیبعہ نے ادویہءمفردہ کی کچھ کتابیں ابن بیطار سے پڑھی تھیں۔ اپنے استاد کی تعلیم کا جو اسلوب انھوں نے طبقات میں لکھا ہے اس سے استحضار علمی کے علاوہ یہ بھی آشکارا ہوتا ہے کہ اساتذہء سلف کس طرح اپنے تلامذہ کو کامل بناتے تھے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے استاد کے درس کے وقت بہت سی کتابیں مفرد دواؤں کے متعلق مثلاً دیسقوریدوس، جالینوس اور غافقی کی کتابیں موجود رہتیں۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ اول ایک مفرد دوا کا یونانی نام (جو دیسقوریدوس ) نے لکھا ہے لیتے اس کے بعد اس کے معنی (جو انھوں نے روم میں رہ کر تحقیق کئے تھے) بیان کرتے۔ پھر جو کچھ طبیب مذکور نے اس دوا کے افعال و خواص لکھے ہیں سناتے۔ اسی طرح جالینوس اور متاخرین کے اقوال و مذاہب کا بہ ترتیب ذکر کرتے۔ پھر دوا کے بارے میں اطباء کے باہمی اختلاف کی تشریح کرتے۔ آخر میں وہ غلطیاں ظاہر کرتے جو اطباۓ مذکور سے اس دواکے متعلق سرزد ہوئی تھیں۔ استاد جب ان مدارج کو طئے کرچکتے تو ہم محولہ کتابوں کو کھول کر دیکھتے۔ ان کے زبانی بیان اور ان کتابوں کے مضمون میں سرِمُو فرق نہ نکلتا۔ جب ہم کتاب دیکھتے تو ابن بیطار یہ بتاتے جاتے کہ دیسقوریدوس نے فلاں مقالے میں اس دوا کا ذکر کیا ہے اور مقالہء مذکور میں اس کا نمبر یہ ہے۔ اس قدر بیان پر استاد کو تسلی نہ ہوتی بلکہ جن نباتات کا ذکر درس میں ہوتا وقتاً فوقتاً جنگل میں لے جاکر ان کا مشاہدہ بھی طلبہ کو کرادیتے۔
جو استاد اپنے طلبہ کے سامنے بقراط اور جالینوس کی غلطیاں نکال کر رکھ دے ان کو کتاب کا کیڑا نہ بنائے بلکہ حقائق کے مشاہدے کا خوگر کرے اس کے شاگرد بے شک کامل اور محقق ہوں گے۔ ماخوذ از۔ علماۓ سلف۔ مولانا حبیب الرحمان خان شروانی

*یوم اساتذہ پر ‏اساتذہء طب کو سلام*

ڈاکٹر محمد یاسر
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر ممبئی
http://unanihakeem.in/
yasirm7@gmail.com