فن طب (Medicine) کے ماہر کے لئے جو صحیح لفظ ہے وہ *طبیب یا فزیشین (Physician)* ہے۔ یعنی وہ شخص جو بیماریوں اور دواؤں کی مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ صحت مند افراد کے لئے حفظان صحت کے اصول اور بیماروں کے لئے علاج کے اصول جانتا ہو اور کامیابی سے یہ کام کرتا ہو۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں اس شعبے کے ماہر کے لئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ *حکیم یا ڈاکٹر (Doctor)* ہے۔ جس کے لغوی معنی کا تعلق براہ راست طب سے نہیں۔ (اسی وجہ سے بعض اوقات ڈاکٹر آف فلاسفی یعنی پی ایچ ڈی کئے ہوئے لوگ، طبیبوں کے لئے لفظ ڈاکٹر استعمال کرنے کو غلط قرار دیتے ہیں اور اسے اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔)
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کے دور میں حکیم ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو کئی علوم کا ماہر ہو، عقل میں اور لوگوں پر فائق ہو، غوروفکر کرنے والا فلسفی قسم کا ہو اور اسکے علم و حکمت کے ذریعے لوگوں کو نفع پہنچتا ہو۔ ایسے افراد جب علم طب کی طرف مائل ہوتے اور اس سے پوری واقفیت حاصل کرلیتے تو عموماً طب کی اہمیت کے پیش نظریا شوق کی وجہ سے فن طب کو اپنا اہم مشغلہ بنا لیتے۔ اور اس شعبے میں کامیاب ہوتے۔
علاوہ ازیں اس شعبے کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بارے میں پرانے اطباء نے لکھا ہے کہ طبیب کے لئے ضروری ہے کہ اسے کتابوں کا شوق ہو، اچھی سمجھ ہو، کردار اچھا ہو، طب کا علم اچھی طرح حاصل کیا ہو ساتھ ہی مریضوں کا مشاہدہ بھی کیا ہو۔ بغیر کتابوں کےصرف مشاہدے پر اکتفا نہ کیا ہو۔ چنانچہ اس طرح کی صلاحیتوں والے (حکیم) طبیب بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ حکماء اور اطباء میں فرق کم ہوتا گیا۔ طبیب کو حکیم کہا جانے لگا اور حکیم کو طبیب سمجھا جانے لگا۔ چونکہ اس وقت طب صرف طب یونانی ہی تھی اس لئے طب یونانی کے ماہرین حکیم کہلائے۔ جب طب یورپ منتقل ہوئی اس میں تبدیلیاں ہوئیں اور ایلوپیتھی(یہ لفظ طب یونانی کے بنیادی اصول علاج بالضد کا ترجمہ ہے۔ Alloکا معنی ضد یا تضاد) کے نام سے جدید طب وجود میں آئی تو وہاں کی انگریزی یا لاطینی زبان میں طبیب کو فزیشین کہا گیا۔ لیکن پھر اسی فطری قاعدے کے تحت جب دیکھا گیا کہ فزیشین معاشرے کے زیادہ عقلمند اہل علم اور دانشور افراد ہوتے ہیں تو وہاں بھی فزیشین کے لئے ڈاکٹر کا لفظ مستعمل ہوگیا۔ یہ لفظ ایلوپیتھی کے ساتھ ساری دنیا میں پہنچ گیا اور طبیب کو ڈاکٹر کہا جانے لگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آیوروید کے ماہر کے لئے استعمال ہونے والا لفظ *وید* بھی لغت میں حکیم و ڈاکٹر ہی کا معنی رکھتا ہے۔
مشہور عربی طبیب زکریا رازی نے اپنی کتاب المنصوری میں ایک حقیقت بیان کی ہے کہ علم والا طبیب تھوڑے بہت مشاہدات کی مدد سے ان لوگوں سے بہتر کارنامہ انجام دیتا ہے جو کتابی علم سے ناواقف ہوں۔ اور جہاں تک اس فن سے وابستہ کم عقلوں اور کم علم لوگوں کا سوال ہے جو صرف مشاہدات بلکہ چند مشاہدات کی بنیاد پر طبابت کرتے ہوں ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
اس دور میں حکومت سے منظور شدہ میڈیکل کورس کئے ہوئے طبیبوں پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔جس میں طلباء کو طبعی (Normal) و غیر طبعی (Abnormal) جسمانی ساخت و افعال، دواؤں کے اچھے اورمضر اثرات، حفظان صحت کے اصول و طریقے، علاج و معالجے کے اصول و طریقے پڑھائے جاتے ہیں اس کے بعد امتحان لے کر ان طلباء کی اہلیت جانچی جاتی ہے۔ پھر کم از کم ایک سال انھیں علاج کرنے کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔
آج کل بغیر تعلیم و مشق کے سرٹیفیکیٹ کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ ایسے کورسیس کرنے والوں کو قابلیت کے دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے ملک کی عدلیہ نے یہ اہم فیصلہ دیا ہے کہ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے کیا جانے والا کوئی بھی میڈیکل کورس قابل اعتبار نہیں۔
ایسے سرٹیفیکیٹ یافتہ لوگ چاہے کسی بھی طریقہء علاج سے واقفیت کا دعوی کریں وہ ہرگز اس کے اہل نہیں ہوسکتے۔
*نیم حکیم خطرہء جاں*
کے ساتھ ساتھ
*نیم ڈاکٹر خطرہء لائف*
اور
*نیم وید خطرہء جیون*
بھی یاد رکھنا چاہیے۔
ہم سبھی احباب سے درخواست کرتے ہیں اگر آپ اپنی اور اپنے اعزہ کی صحت کی حفاظت چاہتے ہیں تو علاج معالجے میں نیم حکیموں کے ساتھ ساتھ نیم (جھولا چھاپ) ڈاکٹروں اور نیم ویدوں سے بھی بچیں جو چند دواؤں کے محدود اثرات سےتھوڑے سے واقف ہوکر اپنی دوکان کھولے بیٹھے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل سے براہ راست دوا لے کر اپنا علاج کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اور اگر آپ کو کسی بیماری میں کسی دوا سے فائدہ ہوا ہو تو اسی دوا یا تدبیر (مثلاً حجامہ) کی تجویز و تبلیغ اپنے خیال سے اسی طرح کی بیماری میں بھی خود سے نہ کریں۔
*🖋محمد یاسر*
ریسرچ اسوسیئیٹ
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین ممبئی۔