Monday, 13 November 2017

طبیب کے لئےحکیم و ڈاکٹر نام کیوں رکھے گئے؟

فن طب (Medicine) کے ماہر کے لئے جو صحیح لفظ ہے وہ *طبیب یا فزیشین (Physician)* ہے۔ یعنی وہ شخص جو بیماریوں اور دواؤں کی مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ صحت مند افراد کے لئے حفظان صحت کے اصول اور بیماروں کے لئے علاج کے اصول جانتا ہو اور کامیابی سے یہ کام کرتا ہو۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں اس شعبے کے ماہر کے لئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ *حکیم یا ڈاکٹر (Doctor)* ہے۔ جس کے لغوی معنی کا تعلق براہ راست طب سے نہیں۔ (اسی وجہ سے بعض اوقات  ڈاکٹر آف فلاسفی یعنی پی ایچ ڈی کئے ہوئے لوگ، طبیبوں کے لئے لفظ ڈاکٹر استعمال کرنے کو غلط قرار دیتے ہیں اور اسے اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔)
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کے دور میں حکیم ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو کئی علوم کا ماہر ہو، عقل میں اور لوگوں پر فائق ہو، غوروفکر کرنے والا فلسفی قسم کا ہو اور اسکے علم و حکمت کے ذریعے لوگوں کو نفع پہنچتا ہو۔ ایسے افراد جب علم طب کی طرف مائل ہوتے اور اس سے پوری واقفیت حاصل کرلیتے تو عموماً طب کی اہمیت کے پیش نظریا شوق کی وجہ سے فن طب کو اپنا اہم مشغلہ بنا لیتے۔ اور اس شعبے میں کامیاب ہوتے۔
علاوہ ازیں اس شعبے کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بارے میں پرانے اطباء نے لکھا ہے کہ طبیب کے لئے ضروری ہے کہ اسے کتابوں کا شوق ہو، اچھی سمجھ ہو، کردار اچھا ہو، طب کا علم اچھی طرح حاصل کیا ہو ساتھ ہی مریضوں کا مشاہدہ بھی کیا ہو۔ بغیر کتابوں کےصرف مشاہدے پر اکتفا نہ کیا ہو۔ چنانچہ اس طرح کی صلاحیتوں والے (حکیم) طبیب بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ حکماء اور اطباء میں فرق کم ہوتا گیا۔ طبیب کو حکیم کہا جانے لگا اور حکیم کو طبیب سمجھا جانے لگا۔ چونکہ اس وقت طب صرف طب یونانی ہی تھی اس لئے طب یونانی کے ماہرین حکیم کہلائے۔ جب طب یورپ منتقل ہوئی اس میں تبدیلیاں ہوئیں اور ایلوپیتھی(یہ لفظ طب یونانی کے  بنیادی اصول علاج بالضد کا ترجمہ ہے۔ Alloکا معنی ضد یا تضاد) کے نام سے جدید طب وجود میں آئی تو وہاں کی انگریزی یا لاطینی زبان میں طبیب کو فزیشین کہا گیا۔ لیکن پھر اسی فطری قاعدے کے تحت جب دیکھا گیا کہ فزیشین معاشرے کے زیادہ عقلمند اہل علم اور دانشور افراد ہوتے ہیں تو وہاں بھی فزیشین کے لئے ڈاکٹر کا لفظ مستعمل ہوگیا۔  یہ لفظ ایلوپیتھی کے ساتھ ساری دنیا میں پہنچ گیا اور طبیب کو ڈاکٹر کہا جانے لگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آیوروید کے ماہر کے لئے استعمال ہونے والا لفظ *وید* بھی لغت میں حکیم و ڈاکٹر ہی کا معنی رکھتا ہے۔
مشہور عربی طبیب زکریا رازی نے اپنی کتاب المنصوری میں ایک حقیقت بیان کی ہے کہ علم والا طبیب تھوڑے بہت مشاہدات کی مدد سے ان لوگوں سے بہتر کارنامہ انجام دیتا ہے جو کتابی علم سے ناواقف ہوں۔ اور جہاں تک اس فن سے وابستہ کم عقلوں اور کم علم لوگوں کا سوال ہے جو صرف مشاہدات بلکہ چند مشاہدات کی بنیاد پر طبابت کرتے ہوں ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

اس دور میں حکومت سے منظور شدہ میڈیکل کورس کئے ہوئے طبیبوں پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔جس میں طلباء کو طبعی (Normal) و غیر طبعی (Abnormal) جسمانی ساخت و افعال، دواؤں کے اچھے اورمضر اثرات، حفظان صحت کے اصول و طریقے، علاج و معالجے کے اصول و طریقے پڑھائے جاتے ہیں اس کے بعد امتحان لے کر ان طلباء کی اہلیت جانچی جاتی ہے۔ پھر کم از کم ایک سال انھیں علاج کرنے کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔
آج کل بغیر تعلیم و مشق کے سرٹیفیکیٹ کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ ایسے کورسیس کرنے والوں کو قابلیت کے دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے ملک کی عدلیہ نے یہ اہم فیصلہ دیا ہے کہ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے کیا جانے والا کوئی بھی میڈیکل کورس قابل اعتبار نہیں۔
ایسے سرٹیفیکیٹ یافتہ لوگ چاہے کسی بھی طریقہء علاج سے واقفیت کا دعوی کریں وہ ہرگز اس کے اہل نہیں ہوسکتے۔

*نیم حکیم خطرہء جاں*
کے ساتھ ساتھ
*نیم ڈاکٹر خطرہء لائف*
اور
*نیم وید خطرہء جیون*
بھی یاد رکھنا چاہیے۔ 

ہم سبھی احباب سے درخواست کرتے ہیں اگر آپ اپنی اور اپنے اعزہ کی صحت کی حفاظت چاہتے ہیں تو علاج معالجے میں نیم حکیموں کے ساتھ ساتھ نیم (جھولا چھاپ) ڈاکٹروں اور نیم ویدوں سے بھی بچیں جو چند دواؤں کے محدود اثرات سےتھوڑے سے واقف ہوکر اپنی دوکان کھولے بیٹھے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل سے براہ راست دوا لے کر اپنا علاج کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اور اگر آپ کو کسی بیماری میں کسی دوا سے فائدہ ہوا ہو تو اسی دوا یا تدبیر (مثلاً حجامہ) کی تجویز و تبلیغ اپنے خیال سے اسی طرح کی بیماری میں بھی خود سے نہ کریں۔

*🖋محمد یاسر*
ریسرچ اسوسیئیٹ
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین ممبئی۔

Sunday, 5 November 2017

*حجامہ کے متعلق کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ*


کچھ دنوں سے حجامہ عوام میں بہت مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی تاکید فرمائی اور افادیت بیان فرمائی ہے۔ نبوی ہدایات مسلمانوں کے لئے حرف آخر اور واجب العمل ہیں۔
اس سلسلے میں کچھ افراط و تفریط بھی سامنے آئی ہے۔ ایک طرف ماضی قریب کی قدیم طرز کی طبی تعلیم پائے ہوئے اطباء جنہوں نے کبھی حجامہ نہ کیا تھا نہ دیکھا تھا وہ اس کی طرف مائل نہیں ہوتے یا کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر دواؤں کے ذریعے ہی علاج کی کوشش کرتے ہیں۔ بصد احترم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان کا یہ عمل ان کی اسی طرز کی طبی تعلیم اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ ماضی بعید میں یونانی، ایرانی اور عربی دور کے اکثر اطباء نے حجامہ اور اس جیسی تدابیر کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے اور اس زمانے میں یہ رائج بھی رہا ہے۔
دوسری طرف بعض خواندہ و ناخواندہ افراد اس کے سنت ہونے کی وجہ سے اس درجہ اس کی ترغیب دینے لگے ہیں گویا دوسرے علاج کے تمام طریقے غیر ضروری ہوں۔ کچھ لوگوں نے اسے کسب معیشت کے لئے مفید پایا تو مذہب کے نام پر لوگوں میں اس کی خوب تشہیر کی اور اس کے مواقع indication اور موانع contra indication کا بالکل خیال نہیں کیا۔ نہ اس کے ان اصولوں کو اپنایا جو سینکڑوں اطباء کے تجربات کی روشنی میں بنائے گئے ہیں اور نہ اس کا مکمل علم حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ بلکہ دھوکہ دہی کے اس دور میں نیم حکیم خطرہ جاں کے مصداق بن گئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے من مانے حجامہ کے طریقے سکھانے لگے۔
واقعہ یہ ہے کہ عوام میں طب و دین کی ناواقفیت نے ان نیم حکیموں کو شہ دی ہے۔ آج بہتیرے لوگ ایسے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ہر بیماری کا علاج حجامہ سے کیا جائے۔
مذہب اسلام ایک مکمل اور معتدل مذہب ہے۔ یہ لوگوں کی ہدایت کے لئے عطا کیا گیا ہے۔ اس میں فن طب کے باریک اصولوں کی بجائے بقدر ضرورت جامع ہدایات ہیں۔ جہاں حضور علیہ السلام نے حجامہ کی تاکید فرمائی ہے وہیں ہم دیکھتے ہیں کی مطلق دوا علاج کو مسنون قرار دیا ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی عیادت پر انھیں عجوہ کھجور گھٹلی سمیت استعمال کرنے کی تاکید فرمائی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس دور کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ ثقفی (جو یونانی طب کے مدرسہ جندی شاپور سے تعلیم یافتہ تھے) کے پاس بغرض علاج لے جانے کی ہدایت بھی دی جاتی ہے۔ یہاں ہمیں حجامہ کی ترغیب نہیں ملتی۔
کھجور کے منافع واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ایک صحابی کو آشوب چشم کی حالت میں کھجور ہی کھانے سے روکا جاتا ہے۔ اگر آج کسی شخص کو اس کے مرض کے اعتبار سے زیتون ، کلونجی، شہد یا کھجور سے منع کیا جائے تو وہ مریض حیرت سے کہتا ہے کہ کیا طب نبوی میں بھی نقصان ہے؟ اب ہم ان خود ساختہ علم یافتہ لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ طب نبوی اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
حجامہ سے متعلق ایک مسئلہ سنت پوئنٹ کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ حضورعلیہ السلام نے اپنی جسمانی کیفیت مبارکہ کے اعتبار سے جب جہاں ضرورت سمجھی اس مقام پر حجامہ کرنے والوں سے سینگھیاں کھنچوائیں(حجامہ کروایا)۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو وہی تکلیف ہو اور اسی مقام پر اس کے لئے حجامہ کرنا ضروری ہو۔ بلکہ جیسی بیماری ہو اس اعتبار سے متعلق مقام پر حجامہ کیا جائے گا۔
بغیر بیماری کے حفظان صحت کے لئے اطباء نے کاہل کے مقام (interscapular region) پر حجامہ کو مفید قرار دیا ہے۔ جو بدن سے فاسد خون کے عمومی تنقیہ کے لئے بہتر جگہ ہے۔
بقول علامہ الذھبی (ایک بلند پایہ محدث) جو لوگ صحت کی حفاظت کے خیال سے حجامہ کروانا چاہتے ہیں ان کے لئے قمری مہینوں کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخیں مستحب ہیں (اس کو مستحب کے درجے میں ہی رکھنا چاہئے)۔ اور علامہ نے ہی  چند محدثین کے حجامہ کروانے کے واقعات کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مرض کی حالت میں ان تاریخوں کی اور دن رات کوئی قید نہیں۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ حفظان صحت کے لئے حجامہ کے علاوہ دوسری بھی تدابیر ہیں مثلا ً قئے، اسہال، ادرار، فصد، تعریق وغیرہ جنھیں حسب حال و موسم استعمال کرنا چاہئے۔
خلاصہ یہ کہ مریض کا بس یہ کام ہی کہ وہ طبیب کے پاس جاکر اپنی تکالیف بیان کرے اس کے آگے ایک ماہر طبیب کا کام شروع ہوتا ہے حسب ضرورت وہ اس کا علاج غذا سے کرے یا دوا سے ، حجامہ جیسی تدابیر سے یا سرجری سے۔

🖋ڈاکٹرمحمد یاسر