کچھ دنوں سے حجامہ عوام میں بہت مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی تاکید فرمائی اور افادیت بیان فرمائی ہے۔ نبوی ہدایات مسلمانوں کے لئے حرف آخر اور واجب العمل ہیں۔
اس سلسلے میں کچھ افراط و تفریط بھی سامنے آئی ہے۔ ایک طرف ماضی قریب کی قدیم طرز کی طبی تعلیم پائے ہوئے اطباء جنہوں نے کبھی حجامہ نہ کیا تھا نہ دیکھا تھا وہ اس کی طرف مائل نہیں ہوتے یا کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر دواؤں کے ذریعے ہی علاج کی کوشش کرتے ہیں۔ بصد احترم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان کا یہ عمل ان کی اسی طرز کی طبی تعلیم اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ ماضی بعید میں یونانی، ایرانی اور عربی دور کے اکثر اطباء نے حجامہ اور اس جیسی تدابیر کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے اور اس زمانے میں یہ رائج بھی رہا ہے۔
دوسری طرف بعض خواندہ و ناخواندہ افراد اس کے سنت ہونے کی وجہ سے اس درجہ اس کی ترغیب دینے لگے ہیں گویا دوسرے علاج کے تمام طریقے غیر ضروری ہوں۔ کچھ لوگوں نے اسے کسب معیشت کے لئے مفید پایا تو مذہب کے نام پر لوگوں میں اس کی خوب تشہیر کی اور اس کے مواقع indication اور موانع contra indication کا بالکل خیال نہیں کیا۔ نہ اس کے ان اصولوں کو اپنایا جو سینکڑوں اطباء کے تجربات کی روشنی میں بنائے گئے ہیں اور نہ اس کا مکمل علم حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ بلکہ دھوکہ دہی کے اس دور میں نیم حکیم خطرہ جاں کے مصداق بن گئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے من مانے حجامہ کے طریقے سکھانے لگے۔
واقعہ یہ ہے کہ عوام میں طب و دین کی ناواقفیت نے ان نیم حکیموں کو شہ دی ہے۔ آج بہتیرے لوگ ایسے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ہر بیماری کا علاج حجامہ سے کیا جائے۔
مذہب اسلام ایک مکمل اور معتدل مذہب ہے۔ یہ لوگوں کی ہدایت کے لئے عطا کیا گیا ہے۔ اس میں فن طب کے باریک اصولوں کی بجائے بقدر ضرورت جامع ہدایات ہیں۔ جہاں حضور علیہ السلام نے حجامہ کی تاکید فرمائی ہے وہیں ہم دیکھتے ہیں کی مطلق دوا علاج کو مسنون قرار دیا ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی عیادت پر انھیں عجوہ کھجور گھٹلی سمیت استعمال کرنے کی تاکید فرمائی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس دور کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ ثقفی (جو یونانی طب کے مدرسہ جندی شاپور سے تعلیم یافتہ تھے) کے پاس بغرض علاج لے جانے کی ہدایت بھی دی جاتی ہے۔ یہاں ہمیں حجامہ کی ترغیب نہیں ملتی۔
کھجور کے منافع واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ایک صحابی کو آشوب چشم کی حالت میں کھجور ہی کھانے سے روکا جاتا ہے۔ اگر آج کسی شخص کو اس کے مرض کے اعتبار سے زیتون ، کلونجی، شہد یا کھجور سے منع کیا جائے تو وہ مریض حیرت سے کہتا ہے کہ کیا طب نبوی میں بھی نقصان ہے؟ اب ہم ان خود ساختہ علم یافتہ لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ طب نبوی اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
حجامہ سے متعلق ایک مسئلہ سنت پوئنٹ کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ حضورعلیہ السلام نے اپنی جسمانی کیفیت مبارکہ کے اعتبار سے جب جہاں ضرورت سمجھی اس مقام پر حجامہ کرنے والوں سے سینگھیاں کھنچوائیں(حجامہ کروایا)۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو وہی تکلیف ہو اور اسی مقام پر اس کے لئے حجامہ کرنا ضروری ہو۔ بلکہ جیسی بیماری ہو اس اعتبار سے متعلق مقام پر حجامہ کیا جائے گا۔
بغیر بیماری کے حفظان صحت کے لئے اطباء نے کاہل کے مقام (interscapular region) پر حجامہ کو مفید قرار دیا ہے۔ جو بدن سے فاسد خون کے عمومی تنقیہ کے لئے بہتر جگہ ہے۔
بقول علامہ الذھبی (ایک بلند پایہ محدث) جو لوگ صحت کی حفاظت کے خیال سے حجامہ کروانا چاہتے ہیں ان کے لئے قمری مہینوں کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخیں مستحب ہیں (اس کو مستحب کے درجے میں ہی رکھنا چاہئے)۔ اور علامہ نے ہی چند محدثین کے حجامہ کروانے کے واقعات کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مرض کی حالت میں ان تاریخوں کی اور دن رات کوئی قید نہیں۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ حفظان صحت کے لئے حجامہ کے علاوہ دوسری بھی تدابیر ہیں مثلا ً قئے، اسہال، ادرار، فصد، تعریق وغیرہ جنھیں حسب حال و موسم استعمال کرنا چاہئے۔
خلاصہ یہ کہ مریض کا بس یہ کام ہی کہ وہ طبیب کے پاس جاکر اپنی تکالیف بیان کرے اس کے آگے ایک ماہر طبیب کا کام شروع ہوتا ہے حسب ضرورت وہ اس کا علاج غذا سے کرے یا دوا سے ، حجامہ جیسی تدابیر سے یا سرجری سے۔
🖋ڈاکٹرمحمد یاسر
No comments:
Post a Comment