Thursday, 8 March 2018

مریضوں اور معذوروں کی باز آباد کاری (Rehabilitation) : ایک لمحہء فکریہ


✒ *ڈاکٹر محمد یاسر*
ایم ڈی (معالجات)
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹرممبئی۔
yasirm7@gmail.com

ہمارے سماج میں جہاں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہیں ایسے لوگوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے جومختلف بدنی اعذار کی وجہ سے بہت سے روزمرہ کے کام کرنے سے قاصر ہیں۔جو افراد پیدائشی معذورہیں ان کے مسائل تو ہیں ہی لیکن یہاں زیادہ تر ان مریض افراد سے بحث ہے جو مختلف دماغی ، اعصابی، عضلاتی، ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماریوں اور حادثات کے نتیجے میں معذور (Disable) ہورہے ہیں۔ مساجد میں کرسیوں کے اضافے،بڑے شہروں میں لفٹ کا بکثرت استعمال اور وہیل چیئر کا روز افزوں کاروبار اس کی چند مثالیں ہیں جو عام مشاہدے میں ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ا ٹھنے بیٹھنے میں انتہائی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔بہت سوں کے لئے چلنا پھرنا دشوار ہے۔کمر اور گردن کے اعذار سے پریشان ہونے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ذہنی الجھنیں بہتوں میں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ وہ اپنے روٹین کاموں کو صحیح طور سے کرنے پرقادر نہیں ہیں۔ کسی عارضہ کے سبب قوت سماعت(Hearing)، قوت بصارت(Vision) یا قوت گویائی (Speech) کا متاثر ہوجانااچھے بھلے انسان کو دوسروں کا محتاج بنادیتاہے۔ اس قسم کے اعذار بچوں کو ہوجائیں تو والدین کے لئے ایک بھاری مصیبت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کے مستقبل کی فکر انھیں رات دن بے چین کئے رہتی ہے۔ والدین کے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والے خود سہارے کے محتاج بن جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان سب اعذار میں کم و بیش مریض یامعذور شخص اگرچہ خود متاثر ہوتا ہی ہے ساتھ میں اس کا خاندا ن بھی متاثر ہوتا ہے ۔ خاندان کی افرادی قوتیں اور اوقات کے علاوہ خاصا مال اس پر صرف ہوتا ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سماج کے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ تمام متعلقین ایک ذہنی کوفت میں رہتے ہیں۔ مذکورہ مسائل کی وجہ سے ایسے اعذار کا سد باب نہایت ضروری کام ہے۔

ان سب مسائل کے ساتھ یہ بھی سوچئے کہ رب کائنات کی یہ بدنی نعمتیں کتنی عظیم ہیں جن کا فقدان بیک وقت دسیوں افرادکے لئے جانی و مالی پریشانیوں کا باعث ہے۔اس حکیم و بصیر کی مشیتوں کو کون جانتا ہے جس نے ایک عذر کے ذریعے کسی کی مغفرت کا ، تو کسی کے درجات کی بلندی کا سامان کردیا۔کسی کوروزگار کا ذریعہ مہیا کیا تو کسی کو شکران نعمت کا احساس دلادیا۔ کسی کو خدمت خلق کا موقع عنایت کیا تو کسی کوتحقیق و جستجو کی راہ دی۔چنانچہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ایسے سماجی مسائل ہیں جن کا تعلق صرف کسی ایک فرد سے نہیں ہے بلکہ ہم سبھی کو مل کر ان مسائل کے سلجھانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس میں ہمارا دنیوی فائدہ بھی ہے اور اخروی بھی۔ ایسے تمام طبی اعذار (Disabilities) کو دور کرنے کی کوششیں کرنا باز آباد کاری (Rehabilitation) کہلاتا ہے۔

معذوروں کی جسمانی، سماجی اور نفسیاتی قوتوں کو اس حد تک بحال کرنا کہ وہ کسی کی احتیاج کے بغیر اپنے ضروری کاموں پر قادر ہوجائیں، وہ اگر اپنے خاندان کے ذمہ دار ہیں توکسب معاش کرسکیں، بچے ہوں تو علم و فن کی تحصیل کرسکیں اور عورتیں ہوں تو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت پیدا کرلیں اس طرح کہ ان تمام کاموں میں انھیں معاشرتی تفریق محسوس نہ ہو ، یہ باز آبادکاری کے اہم مقاصد ہیں۔

یہ مفید عمل کئی شعبوں کے افراد کے اشتراک سے مختلف مرحلوں میں انجام دیا جاتا ہے۔ مریض/معذور کے لئے تدابیر ، دوائیں ، ذہن سازی (Counselling) و حوصلہ افزائی اور مناسب تعلیم (Education) و تربیت (Training) کرنا ضروری ہے۔ سماجی سطح پرایسے افراد اور ملی و سماجی تنظیموں کی ضرورت ہے جو متاثرین کو تلاش کرکے باز آباد کاری کے ان مقاصد میں مکمل تعاون کریں اور عوام کو ان اعذار کے تدارک کی واقفیت دیں ۔ ایک صحت مند اور صالح معاشرے کا تصور ان کاموں کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر مسلمانوں کو اس شعبے کی ہدایات بھی بکثرت دی گئی ہیں۔ یہ مشہور فرمان ہے۔

خیر الناس من ینفع الناس (لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ نفع پہونچائے۔)

مغربی ممالک میں باوجود دیگر معاشرتی خرابیوں کے اس طرح کی سہولیات موجود ہوتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔اس کام کے لئے ایسے طبی اداروں کی ضرورت بھی ہوتی ہے جہاں اعذار کی صحیح تشخیص و علاج ہو، مختلف ضروری تدابیر، عملی ٹریننگ اور ایجوکیشن دی جاسکے۔ساتھ ہی بہتر سے بہتر حل مہیا کرنے کے لئے مسلسل تحقیقات بھی ہوں۔مختلف شعبوں کے ماہر اطباء کے ساتھ فزیوتھیراپی، ووکیشنل یا آکیو پیشنل تھیراپی بھی مفید ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں یہ واضح کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ بازآباد کاری کے عمل میں صدیوں کے تجربات رکھنے والی طب یونانی کی اثر انگیز حکیمانہ تدابیرکے ذریعے بہت سے اعذار کا کم خرچ بالا نشیں حل موجود ہے۔ طب یونانی کے ایک قومی سطح کے ادارے میں تحقیقی انداز میں اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس قدیم طرز علاج کوبعینہٖ اپناتے ہوئے جدید طب کے طریقوں سے موازنہ بھی کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سینکڑوں افراد جو مختلف بیماریوں مثلاً فالج، ریڑھ کی ہڈی کے عوارضات، حادثات سے ہونے والے اعذار، عضلاتی اور اعصابی نقائص اور علاجی غلطیوں کے نتیجے میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے ، اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔ دماغی معذورین نے دوبارہ ذہنی توانائی حاصل کی، جوڑوں کے عوارضات سے جنہوں نے امید کھو دی تھی ،پہلے کی طرح اپنے جوڑوں کی صحت حاصل کی، جن کی قوت گویائی مفقود ہو گئی تھی وہ بولنے لگے۔ بہت سے اعذار میں یونانی علاج رائج الوقت جدید علاجی طریقے سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوا۔ ان کامیابیوں کی خبریں عام ہوئیں تو ملک و بیرون ملک سے مریض علاج کے لئے پہونچنے لگے ہیں۔ طب جدید کے ماہرین بھی اب ایسے مریضوں کو وہاں ریفر کرنے لگے ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو طب یونانی کی ایسی افادیت کی معلومات ہو اور ان کا اس طب پر اعتماد بحال ہو جو اپنی قدامت اور عوامی ہونے کی وجہ سے غیر مفید سمجھی جانے لگی ہے۔

بازآباد کاری کے جدید طریقوں کے ساتھ طب یونانی کو ترجیحی طور پر شامل کرلیا جائے تو امید ہے کہ محفوظ طریقے سے کم وقت اور مال صرف کرکے زیادہ بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں اوران سماجی مسائل کا تدارک محدود وسائل سے بآسانی ہو سکتا ہے۔
http://epaper.humaapdaily.com/news/7/2018-03-09

No comments:

Post a Comment