Sunday, 24 December 2017

*بغیر سند کے طبی پریکٹس کرنے والوں کے لئے ایک اہم پیغام*

طب ایک ایسا شعبہ ہے جس کا انسانی زندگی سے راست تعلق ہے۔ امراض و علاج اور ادویہ کی تاثیرات کے متعلق بکثرت نظریات (Theories) اور طریقے پائے جاتے ہیں اور ہر ایک میں افادیت کا کچھ نہ کچھ حصہ ہونے کی وجہ سے سب کے ساتھ کم و بیش انسانی صلاحیتیں جڑ جاتی ہیں۔ تلاش معاش و عزت کی طلب میں اور بسا اوقات جذبہء ہمدردی میں بہت سے ناواقف لوگ بھی اس شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔

دین اسلام ایک مکمل طریقہءحیات ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں بھی ہماری اصولی رہبری کرتا ہے۔ ماضیء اسلام میں کچھ ایسے باصلاحیت علماء گزرے ہیں جنھوں نے عام سطح سے اوپر اٹھ کر علوم و فنون کے ہر شعبے کے جملہ حقوق و ضروریات کا تحقیقی جائزہ لے کر نصوص کی روشنی میں ان کے اصول و ضوابط اور اجتہادی نکات بیان کیے ہیں تاکہ امت میں صحیح علمی و دینی مزاج باقی رہے اور جہالت کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ ان کا یہ اقدام اپنے زمانے کی لغزشوں اور غلط رجحانات کے مشاہدات کے رد عمل میں بھی رہا ہوگا۔

انہی مجددین میں امام غزالی اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہما الرحمة ہیں۔ امام غزالی احیاء العلوم جلد اول میں علم کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔" شرعی علوم سے ہم وہ علوم مراد لیتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہونچے ہیں۔ عقل، تجربے اور سماعت کا ان میں کوئی دخل نہیں ہے۔ علم حساب علم طب علم لغت شرعی علوم نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں پہلے کا تعلق عقل سے دوسرے کا تجربے سے اور تیسرے کا سماع سے ہے۔"
یہاں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ علم طب کا تعلق تجربے سے ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجة الله البالغه میں اس کے آگے کی بات لکھی ہے۔ وہ ایک حدیث (مفہوم حدیث یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دینی معاملے میں تم سے زیادہ میں جانتا ہوں اور دنیاوی معاملے میں تم لوگ زیادہ جانتے ہو۔) کے ذیل میں طب نبوی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں۔ " اس کی حیثیت تبلیغی و تشریعی نہیں ہے اور وہ آپ کےاور اہل عرب کے تجارب و عادات پر مبنی ہے"۔
اہل عرب کے یہاں ان کے اور آس پاس کی قوموں کے تجربات کی بنیاد پر جو علاجی طریقے (Traditional Medicine) رائج تھے عموماً وہی طب نبوی میں ملتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ بعض علاج وحی کے ذریعے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے گئے لیکن بحیثیت مجموعی پورا علم طب نہ وحی سے ماخوذ ہے نہ یہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہے۔ اسی لئے شاہ صاحب نے فرمایا کہ اس طب سے متعلق نبوی ہدایات تبلیغ کے لئے نہیں اور نہ ان کو شریعت کا جزء سمجھ کر عمل کرنا ضروری ہے۔

دیکھئے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی عیادت پر انھیں عجوہ کھجور گھٹلی سمیت استعمال کرنے کی تاکید فرمائی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس دور کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ ثقفی (جو یونانی طب کے مدرسہ جندی شاپور سے تعلیم یافتہ تھے) کے پاس بغرض علاج لے جانے کی ہدایت بھی دی جاتی ہے۔
ظاہر ہے جیسے جیسے تجربے بڑھیں گے ماہرین علم طب کی طرف سے اسی اعتبار سے تشخیص امراض اور علاج معالجے میں ترقیات اور تبدیلیاں ہوں گی۔ نئے معالجات، ادویات اور تدابیر معلوم ہوتی رہیں گی۔ اسی لحاظ سے تعلیم و تربیت کے انداز ضرورتاً بدلے جائیں گے۔ ماہرین فن کی جانب سے صحیح طبی ہدایات اور رہنما اصول (Guidelines) جاری کئے جائیں گے۔ انسانوں کی صحت کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لئے قوانین بنائے جائیں گے۔ دین اسلام اس نہج کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

مولانا حبیب الرحمان خان شیروانی صاحب نے 'علمائے سلف' میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ "٣١٩ ھ میں خلیفہ مقتدر باللہ کو یہ سن کر سخت افسوس ہوا کہ شہر بغداد میں ایک شخص کی جان کسی طبیب کے جہل مرکب کی نذر ہوگئی۔ آئندہ کی انسداد کے لئے رئیس الاطباء ابن ثابت کے نام یہ حکم صادر کیا گیا کہ تمام اطبائے بغداد کا امتحان لیا جائے۔ جو امتحان میں کامیاب ہوں ان کو سند عطا کی جائے اور جو ناکامیاب ہوں ان کو علاج کرنے سے روک دیا جائے۔ بغرض مزید احتیاط سند میں اس امر کی تشریح بھی ہو کہ دارندہء سند کو فلاں فلاں قسم کے امراض کے معالجے کی اجازت ہے تاکہ وہ انہیں امراض کا علاج کرسکے جن سے اس کو پوری واقفیت ہو۔ ابن ثابت نے فرمان خلافت کی تعمیل کی اور کل اطبائے دار السلام کا امتحان لیا۔دارالخلافة کے دونوں حصوں میں جن اطباء کو سند عطا کی گئی ان کی تعداد کچھ کم نو سو تھی۔" سند کی قانونی ضرورت اُس زمانے میں اہل اسلام نے محسوس کی تو آج اور بھی ضروری ہے کہ ہر طرف دھوکے بازی کا بازار گرم ہے۔ غیر سند یافتہ طبابت کرنے والے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا اس طرح وہ خیانت کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں یا کم ازکم جاہل اطباء کے گروہ کی امداد نہیں کر رہے ہیں؟

بہت سے فقہی مسائل میں 'ماہر طبیب کی رائے' کی قید جو لگائی گئی ہے اس میں غالباً ایک نکتہ یہ بھی علماءکے پیش نظر رہا ہوگا ہے کہ آنے والے دور میں نئے مشاہدات کی روشنی میں ممکن ہے امراض کی ماہیئت یا تشریح بدن زیادہ منقح و مصرح ہوجائے۔ ورنہ سینکڑوں علماء ایسے گزرے ہیں جو شریعت کے متبحر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عملاً پایے کے طبیب بھی تھے۔ وہ چاہتے تو اپنے زمانے کے علم طب کی روشنی میں بہت سے ایسے مسائل میں جن میں طب کی ضرورت ہوتی ہے بجائے 'ماہر طبیب کی رائے' لکھنے کہ مفصل طبی نکات لکھ جاتے۔

ماضی میں تجربات اتنے زیادہ نہیں ہوئے تھے جتنے آج ہوچکے لہذا ماضی کے تعلیمی طریقے اور اصول و قوانین کو آج کے دور پر پوری طرح منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں! ماضی و حال دونوں کی مفید ہدایات کو اس طرح ضم (Integrate) کیا جاسکتا ہے کہ افادیت کا پہلو بڑھ جائے اور مضرت کا کم سے کم ہوجائے۔

ایلوپیتھی کے علاوہ دوسری تمام طریقہ ہائے علاج (یونانی، آیوروید، ہومیو پیتھی وغیرہ) کے بارے میں یہ عوامی رجحان ہے کہ ان سے نقصان نہیں ہوتا لہذا کوئی شخص بھی تھوڑی بہت جانکاری حاصل کرکے ان کے ذریعے علاج کرسکتا ہے۔ یہ فکری بنیاد غلط ہے اور جہالت پر مبنی ہے۔ طب یونانی میں دواؤں کے چار درجات مقرر کئے گئے ہیں۔ تیسرے اور چوتھے درجہ کی دوائیں بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی تاکید ہے۔ کچھ دواؤں میں غذائی اجزاء ہوتے ہیں اور کچھ غذاؤں میں دوائی اجزاء ہوتے ہیں۔ مطلق غذا کے استعمال سے نقصان نہ ہونا سمجھا جائے تو کسی حد تک ٹھیک ہے ورنہ چاہے دوائے غذائی ہو یا غذائے دوائی یا مطلق دوا ہر ایک کی مضرت (Side Effect) بیان کی گئی ہے۔  مضرت سے اس وقت حفاظت ہوتی ہے جب بیمار اور بیماری کے مزاج کا خیال کرتے ہوئے مناسب کیفیت کی دوا مناسب مقدار میں دی جائے۔ اس کے لئے کم از کم طب کے بنیادی امور، علم منافع الاعضاء، علم تشریح، علم ماہیئت امراض، علم الادویہ، علم تشخیص، علم العلاج، علم الجراحت (Anatomy, Physiology, Patholgy, Pharmacology, Clinical Medicine, Surgery) سے واقفیت ضروری ہے۔ ورنہ جس طرح  لغت، حدیث، فقہ سے پوری واقفیت کے بغیر قران فہمی میں غلطیاں ہوں گی اور ایمان خطرے میں ہوگا اسی طرح درج بالا طبی علوم کے بغیر کوئی علاج شروع کردے تو مریضوں کی جان خطرے میں ہوگی۔

آج کل بہت سے عصری تعلیم یافتہ یا دینی تعلیم یافتہ یا دینی جذبات رکھنے والے افراد (جنھوں نے طبی کورس نہیں کیا ہے) یونانی یا ہومیوپیتھی یا حجامہ تھیراپی کی پریکٹیس کر رہے ہیں یا کسی طریقے سے علاج معالجے میں مصروف ہیں۔ ان کا یہ طرز بالکل درست نہیں ہے۔
اس زمانے میں یونانی علاج کرتے ہوئے ہائے بلڈپریشر، شوگر جیسے بہت سے امراض (جن کی وضاحت جدید طب سے ہوئی ہے) کا سمجھنا اور ان کے عوارضات کا خیال کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ مثلاً کچھ یونانی دوائیں پریشر کو بڑھاتی بھی ہیں۔
اس طرح حجامہ کے دوران مریض کو غشی بھی آسکتی ہے اور اگر ایسی جگہ کپ لگادیا گیا جہاں سے خون کی شریان (Artery) گزرتی ہے تو مریض کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کسی کسی شخص میں خون کی نسوں کا مقام طبعی طور سے مختلف بھی ہوتا ہے۔ کچھ بیماریوں میں ممکن ہے کسی مریض کا خون روکنا مشکل ہوجائے۔ ایسی صورتوں میں مریضوں کا جانی نقصان ظاہر ہے۔

ِِاِس دور میں مستند اور بنیادی طبی کورسیس سے فارغ اطباء کو یہ علوم پورے مستحضر نہ ہوں تب بھی ان سے بنیادی واقفیت ضرور رکھتے ہیں تجربہ یافتہ اطباء کی نگرانی میں علاج کرنا سیکھتے ہیں اور طب کی نئی تحقیقات و اضافے سے بھی انھیں آگاہی ہوتی رہتی ہے اور اتنی قابلیت ہوتی ہے کہ نئی تحقیقات اور اس کی عملی افادیت کو سمجھ سکیں۔وہ جانتے ہیں کہ ایمرجنسی حالات میں کونسی فوری طبی امداد (First Aid) دینی چاہیے اور مریضوں کو کب کہاں ریفر کرنا چاہئے۔ کسی شخص کے لئے اس دور میں عملاً یہ نا ممکن ہے کہ بغیر ان کورسیس کے وہ اس قابل ہوجائے۔

طب کا علم حاصل کرنے کی ترغیب سب کو دینی چاہئے کہ یہ ایک مفید علم ہے۔ اور دینی شعبوں کے لوگ اس سے واقفیت رکھیں تو طب کے نئے فقہی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں سہولت ہوگی۔ لیکن مقررہ طریقہء تعلیم سے گزرے بغیر معالجات کرنے سے روکنا ہی چاہئے۔ بلکہ وہ لوگ جو عوام میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہوں ان کو بدرجہء اتم اس سے رکنا چاہئے۔ واللہ المستعان۔

🖋 *ڈاکٹر محمد یاسر*
ریسرچ اسوسئیٹ
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین ممبئی۔
کنسلٹنگ یونانی فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر ممبئی۔
yasirm7@gmail.com

Friday, 22 December 2017

مزاج کا بننا اور بگڑنا۔ ایک اہم طبی مضمون۔

*مزاج کا بننا اور بگڑنا*
تحریر: ڈاکٹر محمد یاسر 
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین، ممبئی۔
کنسلٹنگ یونانی فزیشین: الحکیم یونانی میڈیکیئر سینٹر۔
yasirm7@gmail.com
پچھلے مضمون  ’مزاج کیسا ہے؟‘  میں طبی حیثیت سے اس پر بحث کی گئی تھی کہ حفظان صحت اور علاج مرض میں مزاج کی کیا اہمیت ہے اور کیوں ہے۔  یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جالینوس ایک پایہ کا طبیب گزرا ہے جسنے  پہلی مرتبہ سائنسی طرز پر مشاہدات کی روشنی میں   جسم انسانی کی ساخت اور افعال بیان کئے۔وہ اگرچہ عبقری ذہانت کا مالک تھا لیکن عقل کے ساتھ تجربے اور مشاہدے  کی مدد لینا ضروری سمجھتا تھا۔اس کی یہ طرز فکر موجود ہ  دور کے  ان  اطباء کے لئے مشعل راہ ہے جو محض مریض کی روداد سن کر نسخہ تجویز کردیتے ہیں۔اور اطباء بھی کیا کریں کہ مریضوں نے انھیں بے حد مجبور کیا ہواہے۔ بہت سے مریض یوں مخاطب ہوتے ہیں  ”ڈاکٹر صاحب! ہماری اہلیہ کے پیٹ میں درد ہے اور بخار ہے بس اسی دو پرابلم کی دوا دے دیجئے تیسرا کوئی پرابلم نہیں ہے۔“ اگر انھیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو پھر میڈیکل اسٹور پہونچیں گے۔وہاں موجود شخص چاہے فارمیسی کا لازمی کورس کیا ہو یا نہیں، جھٹ پٹ دوا نکال کر دے گا گویا بڑی حذاقت سے بیماری کی تشخیص بھی کرلی اور علاج بھی تجویز کردیا۔ یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے جس کے بہتر حل کے لئے  ماہرین  طب کو  اوران کے ساتھ معاشرے کی سنجیدہ  اصلاحی کوششیں کرنے والوں کو  غور کرنا چاہئے۔سرکاری قانون اگرچہ موجود ہے لیکن عوام میں اس پر عملی رجحان پیدا کرنے کے لئے موثر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کوشش کرنی چاہئے کہ انھیں طب سے متعلق بنیادی معلومات حاصل ہو اور صحت کو امانت سمجھا جائے۔ جالینوس نے پہلی بار نبض اور مزاج پر کتاب لکھی(اس کی کچھ کتابوں کے عربی اور اردو ترجمے دستیاب ہیں) جس سے آج تک یونانی اطباء استفادہ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس نے طبی میدان میں تحقیقات کے اصول و ضوابط وضع کئے۔اسطرح کی کئی اہم خدمات کی وجہ سے اس کے بارے میں مثل ہے کہ طب مردہ تھا جالینوس نے زندہ کیا۔
لفظ  ’مزاج‘  عربی زبان سے ماخوذہے جس کا معنی  ’آمیزش‘  ہے۔ جب دو یا زائد چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو ان کی کیفیات میں باہم فعل و انفعال ہوتا ہے اور نتیجے میں ایک نئی کیفیت  وجود میں آتی ہے  جسے مزاج کہا جاتا ہے۔ انسان  عناصر اربعہ  (آگ، ہوا، پانی اور مٹی) سے بنایا گیا ہے جس میں  غالب عنصر مٹی ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم  کے الٰہی اعلان کے ساتھ ایک مناسب مقدار میں ان اجزاء کو   خالق کائنات نے یوں ملادیا کہ بہترین  انسانی ساخت تیار ہوگئی۔فقدرنا فنعم القدرون (پھر ہم نے اندازہ مقرر کیا  تو ہم خوب اندازہ کرنے والے ہیں)۔کسی نے سچ کہا ہے    ؎
زندگی کیا ہے  عناصر میں ظہور  ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزاء کا پریشاں ہونا
سائنسدانوں نے ان چارچیزوں میں بھی مزید کھوج کرکے چاہا کہ  انسانی جسم کاایک خلیہ ہی بنالیں۔  چنانچہ یورے اینڈ ملر نے اپنی کیمیکل لیباریٹری  میں چند عناصر  (Elements)  کو ایک مخصوص درجہء حرارت پر مخصوص ماحول میں  ایک مدت  تک رکھ کر تجربہ کیا اور کسی حد تک انسانی خلیات  میں پائی جانے والے اجزاء  انھیں نظر بھی آئے لیکن غیر جاندار  اشیا ء سے جاندار  شئے بنانے سے قاصر رہے۔اوراس اللہ کی صفت ربوبیت کے سامنے عاجز رہے جس نے بدن انسانی میں  اپنا  امر  ’روح‘  ڈال کر اس سانچے کو متحرک کردیاہے۔الا لہ الخلق والامر (یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب  اسی کا کام ہے)۔ابدان و اجسام کاخالق  اور حرکات و سکنات کا حاکم وہی ہے دوسرا کوئی نہیں۔ماہرین طب نے جسم انسانی کاعمیق مطالعہ کیا ہے اور کارساز عالم کی کاریگری پر بار بار حیرت کی ہے لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے انھیں پریشان کیاہے وہ یہ ہے کہ انسان کی کوئی حرکت یا فعل شروع کیونکر ہوجاتا ہے۔ کسی فعل کے شروع ہوجانے کے بعد کس کس طرح تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ خوب بیان کی گئیں لیکن کسی کے دل میں اگر ہاتھ اٹھانے ہی کا خیا ل آیاتو کہاں سے آیا؟  اس کی وضاحت کے لئے نظریات اور محض نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ صحیح جواب یہی ہے کہ یہ حکم الٰہی اور مشیت خداوندی سے ہوا۔
بہر حال یہاں اجمالاً اس بات کی وضاحت کرنی تھی کہ انسان کا امتزاج کس طرح ہوا۔ہمارا روز مرہ کا ایک تجربہ ہے کہ ہم اپنے جیسے مزاج کے لوگوں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔لین دین اور معاملات بھی ہم مزاج لوگوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں زندگی کی بقاء کے لئے بھی انسان ان چاروں چیزوں کی مناسب مقدار کا  محتاج رہتا ہے۔آگ کی حرارت ہو یا سورج کی روشنی، باد نسیم کی خواہش ہو یا تنفس (سانس لینے کے لئے)کے لئے آکسیجن کی ضرورت، پیاس کا احساس ہو یا رحمت باراں کی طلب، زمین سے  اناج غلے  اگانے ہوں یا چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے چہار دیواری  بنانی ہو ہر انسانی ضرورت کی تکمیل کے لئے  یہ عناصر اربعہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میں سے ہر عنصر اپنے اندر ایک کیفیت رکھتا ہے۔ آگ میں گرمی اور خشکی کے وجود کا کسے انکار ہے؟ ہواکی ٹھنڈک اور نمی سے سبھی لوگ لطف لیتے ہیں۔پانی میں ٹھنڈک کے ساتھ نمی کی صفت جگ ظاہر ہے۔ مٹی کو پانی سے جدا کردیا جائے توخشکی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔اور یہ مٹی کی ٹھنڈی صفت ہی ہے کہ پانی  ٹھنڈا رکھنے کے مقصدسے مٹی کے گڑھے بنائے جاتے رہے ہیں۔جب انسان انھیں چار عناصر سے مل کر بنا ہے تو لامحالہ ان ہی کی کیفیات کم و بیش انسان میں پائی جائیں گی۔ گرمی (حرارت)،  ٹھنڈی(برودت)،  نمی(رطوبت) اور خشکی(یبوست) یہ  وہ بنیادی کیفیات ہیں جو انسان اور دیگر اشیاء کا مزاج ظاہر کرتی ہیں۔ بحیثیت انسان  دیگر مخلوقات کے مقابلے  ہمارا  ایک مزاج ہے جو  نہ  آگ کی طرح گرم و خشک ہے، نہ  ہوا کے مثل گرم و تر، نہ پانی کی طرح سرد و تر اور نہ مٹی کی طر ح سرد و خشک بلکہ ان سب کے درمیان ایک اعتدال ہے جو انسانی حرکات و سکنات کے لئے موزوں ترین ہے۔
یہ انسانی  مزاج مختلف افراد میں  تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ حرارت  کے پیمانے پرغور کیا جائے تو کوئی گرمی کی طرف مائل ہوتا ہے کوئی سردی کی طرف۔ رطوبت کے پیمانے پر کوئی مرطوب مزاج تو کوئی خشک مزاج ہوتا ہے۔اور کچھ لوگ درمیانی مزاج لئے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہی مزاج انسانی افعال کے تغیرات اور فرق کا سبب ہوتا ہے اس لئے کسی شخص کے مزاج کو معلوم کرنے کے لئے اطباء اس کے بدنی افعال اور کیفیات کا بغور معائنہ کرتے ہیں۔اس کا بات کرنے کا انداز، دیکھنا اور سننا، چلنا پھرنا، انفعال و تاثر، درجہء حرارت، جسمانی ساخت اور نبض کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ و فکر، عزائم اور دل چسپیوں کو بھی  اہمیت دیتے ہیں۔ممکن ہے ڈیجیٹل لائف کے اس دور میں بھی آپ اپنے ڈیبٹ (Debit) اور کریڈٹ(Credit) کو چاہیں تو چھپا لیں اور ہر نقصان  سے محفوظ رہیں لیکن مزاج کی صحیح تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ ہر داخل بدن اور خارج بدن چیز کی مقدار  و کیفیت آپ اپنے طبیب کو صحیح بتائیں۔
انسان مسلسل بدلتی ہوئی فضاء میں رہتاہے۔ کھانے پینے کی ہر چیز کا اثر لیتا ہے۔ اس کے بدن کی حرکات و سکنات کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔یہ زندہ دل و ماغ رکھتا ہے جو واقعات و حوادث  پر رد عمل کرتے ہیں، سونے جاگنے میں کمی بیشی ناگزیر ہے اور لائف اسٹائل کی وجہ سے فضلات بدن میں تغیر ہوتا ہے۔ یہ سارے عوامل انسان کے مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں بعض مرتبہ انسانی مزاج طبعی حالت سے مرض کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔اس لئے بیماری میں عیادت کرنے والے احباب خیریت کے ساتھ مزاج بھی پوچھتے ہیں۔ (جاری)

Monday, 13 November 2017

طبیب کے لئےحکیم و ڈاکٹر نام کیوں رکھے گئے؟

فن طب (Medicine) کے ماہر کے لئے جو صحیح لفظ ہے وہ *طبیب یا فزیشین (Physician)* ہے۔ یعنی وہ شخص جو بیماریوں اور دواؤں کی مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ صحت مند افراد کے لئے حفظان صحت کے اصول اور بیماروں کے لئے علاج کے اصول جانتا ہو اور کامیابی سے یہ کام کرتا ہو۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں اس شعبے کے ماہر کے لئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ *حکیم یا ڈاکٹر (Doctor)* ہے۔ جس کے لغوی معنی کا تعلق براہ راست طب سے نہیں۔ (اسی وجہ سے بعض اوقات  ڈاکٹر آف فلاسفی یعنی پی ایچ ڈی کئے ہوئے لوگ، طبیبوں کے لئے لفظ ڈاکٹر استعمال کرنے کو غلط قرار دیتے ہیں اور اسے اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔)
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کے دور میں حکیم ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو کئی علوم کا ماہر ہو، عقل میں اور لوگوں پر فائق ہو، غوروفکر کرنے والا فلسفی قسم کا ہو اور اسکے علم و حکمت کے ذریعے لوگوں کو نفع پہنچتا ہو۔ ایسے افراد جب علم طب کی طرف مائل ہوتے اور اس سے پوری واقفیت حاصل کرلیتے تو عموماً طب کی اہمیت کے پیش نظریا شوق کی وجہ سے فن طب کو اپنا اہم مشغلہ بنا لیتے۔ اور اس شعبے میں کامیاب ہوتے۔
علاوہ ازیں اس شعبے کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بارے میں پرانے اطباء نے لکھا ہے کہ طبیب کے لئے ضروری ہے کہ اسے کتابوں کا شوق ہو، اچھی سمجھ ہو، کردار اچھا ہو، طب کا علم اچھی طرح حاصل کیا ہو ساتھ ہی مریضوں کا مشاہدہ بھی کیا ہو۔ بغیر کتابوں کےصرف مشاہدے پر اکتفا نہ کیا ہو۔ چنانچہ اس طرح کی صلاحیتوں والے (حکیم) طبیب بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ حکماء اور اطباء میں فرق کم ہوتا گیا۔ طبیب کو حکیم کہا جانے لگا اور حکیم کو طبیب سمجھا جانے لگا۔ چونکہ اس وقت طب صرف طب یونانی ہی تھی اس لئے طب یونانی کے ماہرین حکیم کہلائے۔ جب طب یورپ منتقل ہوئی اس میں تبدیلیاں ہوئیں اور ایلوپیتھی(یہ لفظ طب یونانی کے  بنیادی اصول علاج بالضد کا ترجمہ ہے۔ Alloکا معنی ضد یا تضاد) کے نام سے جدید طب وجود میں آئی تو وہاں کی انگریزی یا لاطینی زبان میں طبیب کو فزیشین کہا گیا۔ لیکن پھر اسی فطری قاعدے کے تحت جب دیکھا گیا کہ فزیشین معاشرے کے زیادہ عقلمند اہل علم اور دانشور افراد ہوتے ہیں تو وہاں بھی فزیشین کے لئے ڈاکٹر کا لفظ مستعمل ہوگیا۔  یہ لفظ ایلوپیتھی کے ساتھ ساری دنیا میں پہنچ گیا اور طبیب کو ڈاکٹر کہا جانے لگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آیوروید کے ماہر کے لئے استعمال ہونے والا لفظ *وید* بھی لغت میں حکیم و ڈاکٹر ہی کا معنی رکھتا ہے۔
مشہور عربی طبیب زکریا رازی نے اپنی کتاب المنصوری میں ایک حقیقت بیان کی ہے کہ علم والا طبیب تھوڑے بہت مشاہدات کی مدد سے ان لوگوں سے بہتر کارنامہ انجام دیتا ہے جو کتابی علم سے ناواقف ہوں۔ اور جہاں تک اس فن سے وابستہ کم عقلوں اور کم علم لوگوں کا سوال ہے جو صرف مشاہدات بلکہ چند مشاہدات کی بنیاد پر طبابت کرتے ہوں ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

اس دور میں حکومت سے منظور شدہ میڈیکل کورس کئے ہوئے طبیبوں پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔جس میں طلباء کو طبعی (Normal) و غیر طبعی (Abnormal) جسمانی ساخت و افعال، دواؤں کے اچھے اورمضر اثرات، حفظان صحت کے اصول و طریقے، علاج و معالجے کے اصول و طریقے پڑھائے جاتے ہیں اس کے بعد امتحان لے کر ان طلباء کی اہلیت جانچی جاتی ہے۔ پھر کم از کم ایک سال انھیں علاج کرنے کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔
آج کل بغیر تعلیم و مشق کے سرٹیفیکیٹ کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ ایسے کورسیس کرنے والوں کو قابلیت کے دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے ملک کی عدلیہ نے یہ اہم فیصلہ دیا ہے کہ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے کیا جانے والا کوئی بھی میڈیکل کورس قابل اعتبار نہیں۔
ایسے سرٹیفیکیٹ یافتہ لوگ چاہے کسی بھی طریقہء علاج سے واقفیت کا دعوی کریں وہ ہرگز اس کے اہل نہیں ہوسکتے۔

*نیم حکیم خطرہء جاں*
کے ساتھ ساتھ
*نیم ڈاکٹر خطرہء لائف*
اور
*نیم وید خطرہء جیون*
بھی یاد رکھنا چاہیے۔ 

ہم سبھی احباب سے درخواست کرتے ہیں اگر آپ اپنی اور اپنے اعزہ کی صحت کی حفاظت چاہتے ہیں تو علاج معالجے میں نیم حکیموں کے ساتھ ساتھ نیم (جھولا چھاپ) ڈاکٹروں اور نیم ویدوں سے بھی بچیں جو چند دواؤں کے محدود اثرات سےتھوڑے سے واقف ہوکر اپنی دوکان کھولے بیٹھے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل سے براہ راست دوا لے کر اپنا علاج کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اور اگر آپ کو کسی بیماری میں کسی دوا سے فائدہ ہوا ہو تو اسی دوا یا تدبیر (مثلاً حجامہ) کی تجویز و تبلیغ اپنے خیال سے اسی طرح کی بیماری میں بھی خود سے نہ کریں۔

*🖋محمد یاسر*
ریسرچ اسوسیئیٹ
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین ممبئی۔