Friday, 22 December 2017

مزاج کا بننا اور بگڑنا۔ ایک اہم طبی مضمون۔

*مزاج کا بننا اور بگڑنا*
تحریر: ڈاکٹر محمد یاسر 
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین، ممبئی۔
کنسلٹنگ یونانی فزیشین: الحکیم یونانی میڈیکیئر سینٹر۔
yasirm7@gmail.com
پچھلے مضمون  ’مزاج کیسا ہے؟‘  میں طبی حیثیت سے اس پر بحث کی گئی تھی کہ حفظان صحت اور علاج مرض میں مزاج کی کیا اہمیت ہے اور کیوں ہے۔  یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جالینوس ایک پایہ کا طبیب گزرا ہے جسنے  پہلی مرتبہ سائنسی طرز پر مشاہدات کی روشنی میں   جسم انسانی کی ساخت اور افعال بیان کئے۔وہ اگرچہ عبقری ذہانت کا مالک تھا لیکن عقل کے ساتھ تجربے اور مشاہدے  کی مدد لینا ضروری سمجھتا تھا۔اس کی یہ طرز فکر موجود ہ  دور کے  ان  اطباء کے لئے مشعل راہ ہے جو محض مریض کی روداد سن کر نسخہ تجویز کردیتے ہیں۔اور اطباء بھی کیا کریں کہ مریضوں نے انھیں بے حد مجبور کیا ہواہے۔ بہت سے مریض یوں مخاطب ہوتے ہیں  ”ڈاکٹر صاحب! ہماری اہلیہ کے پیٹ میں درد ہے اور بخار ہے بس اسی دو پرابلم کی دوا دے دیجئے تیسرا کوئی پرابلم نہیں ہے۔“ اگر انھیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو پھر میڈیکل اسٹور پہونچیں گے۔وہاں موجود شخص چاہے فارمیسی کا لازمی کورس کیا ہو یا نہیں، جھٹ پٹ دوا نکال کر دے گا گویا بڑی حذاقت سے بیماری کی تشخیص بھی کرلی اور علاج بھی تجویز کردیا۔ یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے جس کے بہتر حل کے لئے  ماہرین  طب کو  اوران کے ساتھ معاشرے کی سنجیدہ  اصلاحی کوششیں کرنے والوں کو  غور کرنا چاہئے۔سرکاری قانون اگرچہ موجود ہے لیکن عوام میں اس پر عملی رجحان پیدا کرنے کے لئے موثر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کوشش کرنی چاہئے کہ انھیں طب سے متعلق بنیادی معلومات حاصل ہو اور صحت کو امانت سمجھا جائے۔ جالینوس نے پہلی بار نبض اور مزاج پر کتاب لکھی(اس کی کچھ کتابوں کے عربی اور اردو ترجمے دستیاب ہیں) جس سے آج تک یونانی اطباء استفادہ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس نے طبی میدان میں تحقیقات کے اصول و ضوابط وضع کئے۔اسطرح کی کئی اہم خدمات کی وجہ سے اس کے بارے میں مثل ہے کہ طب مردہ تھا جالینوس نے زندہ کیا۔
لفظ  ’مزاج‘  عربی زبان سے ماخوذہے جس کا معنی  ’آمیزش‘  ہے۔ جب دو یا زائد چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو ان کی کیفیات میں باہم فعل و انفعال ہوتا ہے اور نتیجے میں ایک نئی کیفیت  وجود میں آتی ہے  جسے مزاج کہا جاتا ہے۔ انسان  عناصر اربعہ  (آگ، ہوا، پانی اور مٹی) سے بنایا گیا ہے جس میں  غالب عنصر مٹی ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم  کے الٰہی اعلان کے ساتھ ایک مناسب مقدار میں ان اجزاء کو   خالق کائنات نے یوں ملادیا کہ بہترین  انسانی ساخت تیار ہوگئی۔فقدرنا فنعم القدرون (پھر ہم نے اندازہ مقرر کیا  تو ہم خوب اندازہ کرنے والے ہیں)۔کسی نے سچ کہا ہے    ؎
زندگی کیا ہے  عناصر میں ظہور  ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزاء کا پریشاں ہونا
سائنسدانوں نے ان چارچیزوں میں بھی مزید کھوج کرکے چاہا کہ  انسانی جسم کاایک خلیہ ہی بنالیں۔  چنانچہ یورے اینڈ ملر نے اپنی کیمیکل لیباریٹری  میں چند عناصر  (Elements)  کو ایک مخصوص درجہء حرارت پر مخصوص ماحول میں  ایک مدت  تک رکھ کر تجربہ کیا اور کسی حد تک انسانی خلیات  میں پائی جانے والے اجزاء  انھیں نظر بھی آئے لیکن غیر جاندار  اشیا ء سے جاندار  شئے بنانے سے قاصر رہے۔اوراس اللہ کی صفت ربوبیت کے سامنے عاجز رہے جس نے بدن انسانی میں  اپنا  امر  ’روح‘  ڈال کر اس سانچے کو متحرک کردیاہے۔الا لہ الخلق والامر (یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب  اسی کا کام ہے)۔ابدان و اجسام کاخالق  اور حرکات و سکنات کا حاکم وہی ہے دوسرا کوئی نہیں۔ماہرین طب نے جسم انسانی کاعمیق مطالعہ کیا ہے اور کارساز عالم کی کاریگری پر بار بار حیرت کی ہے لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے انھیں پریشان کیاہے وہ یہ ہے کہ انسان کی کوئی حرکت یا فعل شروع کیونکر ہوجاتا ہے۔ کسی فعل کے شروع ہوجانے کے بعد کس کس طرح تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ خوب بیان کی گئیں لیکن کسی کے دل میں اگر ہاتھ اٹھانے ہی کا خیا ل آیاتو کہاں سے آیا؟  اس کی وضاحت کے لئے نظریات اور محض نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ صحیح جواب یہی ہے کہ یہ حکم الٰہی اور مشیت خداوندی سے ہوا۔
بہر حال یہاں اجمالاً اس بات کی وضاحت کرنی تھی کہ انسان کا امتزاج کس طرح ہوا۔ہمارا روز مرہ کا ایک تجربہ ہے کہ ہم اپنے جیسے مزاج کے لوگوں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔لین دین اور معاملات بھی ہم مزاج لوگوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں زندگی کی بقاء کے لئے بھی انسان ان چاروں چیزوں کی مناسب مقدار کا  محتاج رہتا ہے۔آگ کی حرارت ہو یا سورج کی روشنی، باد نسیم کی خواہش ہو یا تنفس (سانس لینے کے لئے)کے لئے آکسیجن کی ضرورت، پیاس کا احساس ہو یا رحمت باراں کی طلب، زمین سے  اناج غلے  اگانے ہوں یا چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے چہار دیواری  بنانی ہو ہر انسانی ضرورت کی تکمیل کے لئے  یہ عناصر اربعہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میں سے ہر عنصر اپنے اندر ایک کیفیت رکھتا ہے۔ آگ میں گرمی اور خشکی کے وجود کا کسے انکار ہے؟ ہواکی ٹھنڈک اور نمی سے سبھی لوگ لطف لیتے ہیں۔پانی میں ٹھنڈک کے ساتھ نمی کی صفت جگ ظاہر ہے۔ مٹی کو پانی سے جدا کردیا جائے توخشکی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔اور یہ مٹی کی ٹھنڈی صفت ہی ہے کہ پانی  ٹھنڈا رکھنے کے مقصدسے مٹی کے گڑھے بنائے جاتے رہے ہیں۔جب انسان انھیں چار عناصر سے مل کر بنا ہے تو لامحالہ ان ہی کی کیفیات کم و بیش انسان میں پائی جائیں گی۔ گرمی (حرارت)،  ٹھنڈی(برودت)،  نمی(رطوبت) اور خشکی(یبوست) یہ  وہ بنیادی کیفیات ہیں جو انسان اور دیگر اشیاء کا مزاج ظاہر کرتی ہیں۔ بحیثیت انسان  دیگر مخلوقات کے مقابلے  ہمارا  ایک مزاج ہے جو  نہ  آگ کی طرح گرم و خشک ہے، نہ  ہوا کے مثل گرم و تر، نہ پانی کی طرح سرد و تر اور نہ مٹی کی طر ح سرد و خشک بلکہ ان سب کے درمیان ایک اعتدال ہے جو انسانی حرکات و سکنات کے لئے موزوں ترین ہے۔
یہ انسانی  مزاج مختلف افراد میں  تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ حرارت  کے پیمانے پرغور کیا جائے تو کوئی گرمی کی طرف مائل ہوتا ہے کوئی سردی کی طرف۔ رطوبت کے پیمانے پر کوئی مرطوب مزاج تو کوئی خشک مزاج ہوتا ہے۔اور کچھ لوگ درمیانی مزاج لئے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہی مزاج انسانی افعال کے تغیرات اور فرق کا سبب ہوتا ہے اس لئے کسی شخص کے مزاج کو معلوم کرنے کے لئے اطباء اس کے بدنی افعال اور کیفیات کا بغور معائنہ کرتے ہیں۔اس کا بات کرنے کا انداز، دیکھنا اور سننا، چلنا پھرنا، انفعال و تاثر، درجہء حرارت، جسمانی ساخت اور نبض کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ و فکر، عزائم اور دل چسپیوں کو بھی  اہمیت دیتے ہیں۔ممکن ہے ڈیجیٹل لائف کے اس دور میں بھی آپ اپنے ڈیبٹ (Debit) اور کریڈٹ(Credit) کو چاہیں تو چھپا لیں اور ہر نقصان  سے محفوظ رہیں لیکن مزاج کی صحیح تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ ہر داخل بدن اور خارج بدن چیز کی مقدار  و کیفیت آپ اپنے طبیب کو صحیح بتائیں۔
انسان مسلسل بدلتی ہوئی فضاء میں رہتاہے۔ کھانے پینے کی ہر چیز کا اثر لیتا ہے۔ اس کے بدن کی حرکات و سکنات کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔یہ زندہ دل و ماغ رکھتا ہے جو واقعات و حوادث  پر رد عمل کرتے ہیں، سونے جاگنے میں کمی بیشی ناگزیر ہے اور لائف اسٹائل کی وجہ سے فضلات بدن میں تغیر ہوتا ہے۔ یہ سارے عوامل انسان کے مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں بعض مرتبہ انسانی مزاج طبعی حالت سے مرض کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔اس لئے بیماری میں عیادت کرنے والے احباب خیریت کے ساتھ مزاج بھی پوچھتے ہیں۔ (جاری)

No comments:

Post a Comment