Sunday, 24 December 2017

*بغیر سند کے طبی پریکٹس کرنے والوں کے لئے ایک اہم پیغام*

طب ایک ایسا شعبہ ہے جس کا انسانی زندگی سے راست تعلق ہے۔ امراض و علاج اور ادویہ کی تاثیرات کے متعلق بکثرت نظریات (Theories) اور طریقے پائے جاتے ہیں اور ہر ایک میں افادیت کا کچھ نہ کچھ حصہ ہونے کی وجہ سے سب کے ساتھ کم و بیش انسانی صلاحیتیں جڑ جاتی ہیں۔ تلاش معاش و عزت کی طلب میں اور بسا اوقات جذبہء ہمدردی میں بہت سے ناواقف لوگ بھی اس شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔

دین اسلام ایک مکمل طریقہءحیات ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں بھی ہماری اصولی رہبری کرتا ہے۔ ماضیء اسلام میں کچھ ایسے باصلاحیت علماء گزرے ہیں جنھوں نے عام سطح سے اوپر اٹھ کر علوم و فنون کے ہر شعبے کے جملہ حقوق و ضروریات کا تحقیقی جائزہ لے کر نصوص کی روشنی میں ان کے اصول و ضوابط اور اجتہادی نکات بیان کیے ہیں تاکہ امت میں صحیح علمی و دینی مزاج باقی رہے اور جہالت کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ ان کا یہ اقدام اپنے زمانے کی لغزشوں اور غلط رجحانات کے مشاہدات کے رد عمل میں بھی رہا ہوگا۔

انہی مجددین میں امام غزالی اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہما الرحمة ہیں۔ امام غزالی احیاء العلوم جلد اول میں علم کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔" شرعی علوم سے ہم وہ علوم مراد لیتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہونچے ہیں۔ عقل، تجربے اور سماعت کا ان میں کوئی دخل نہیں ہے۔ علم حساب علم طب علم لغت شرعی علوم نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں پہلے کا تعلق عقل سے دوسرے کا تجربے سے اور تیسرے کا سماع سے ہے۔"
یہاں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ علم طب کا تعلق تجربے سے ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجة الله البالغه میں اس کے آگے کی بات لکھی ہے۔ وہ ایک حدیث (مفہوم حدیث یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دینی معاملے میں تم سے زیادہ میں جانتا ہوں اور دنیاوی معاملے میں تم لوگ زیادہ جانتے ہو۔) کے ذیل میں طب نبوی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں۔ " اس کی حیثیت تبلیغی و تشریعی نہیں ہے اور وہ آپ کےاور اہل عرب کے تجارب و عادات پر مبنی ہے"۔
اہل عرب کے یہاں ان کے اور آس پاس کی قوموں کے تجربات کی بنیاد پر جو علاجی طریقے (Traditional Medicine) رائج تھے عموماً وہی طب نبوی میں ملتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ بعض علاج وحی کے ذریعے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے گئے لیکن بحیثیت مجموعی پورا علم طب نہ وحی سے ماخوذ ہے نہ یہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہے۔ اسی لئے شاہ صاحب نے فرمایا کہ اس طب سے متعلق نبوی ہدایات تبلیغ کے لئے نہیں اور نہ ان کو شریعت کا جزء سمجھ کر عمل کرنا ضروری ہے۔

دیکھئے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی عیادت پر انھیں عجوہ کھجور گھٹلی سمیت استعمال کرنے کی تاکید فرمائی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس دور کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ ثقفی (جو یونانی طب کے مدرسہ جندی شاپور سے تعلیم یافتہ تھے) کے پاس بغرض علاج لے جانے کی ہدایت بھی دی جاتی ہے۔
ظاہر ہے جیسے جیسے تجربے بڑھیں گے ماہرین علم طب کی طرف سے اسی اعتبار سے تشخیص امراض اور علاج معالجے میں ترقیات اور تبدیلیاں ہوں گی۔ نئے معالجات، ادویات اور تدابیر معلوم ہوتی رہیں گی۔ اسی لحاظ سے تعلیم و تربیت کے انداز ضرورتاً بدلے جائیں گے۔ ماہرین فن کی جانب سے صحیح طبی ہدایات اور رہنما اصول (Guidelines) جاری کئے جائیں گے۔ انسانوں کی صحت کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لئے قوانین بنائے جائیں گے۔ دین اسلام اس نہج کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

مولانا حبیب الرحمان خان شیروانی صاحب نے 'علمائے سلف' میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ "٣١٩ ھ میں خلیفہ مقتدر باللہ کو یہ سن کر سخت افسوس ہوا کہ شہر بغداد میں ایک شخص کی جان کسی طبیب کے جہل مرکب کی نذر ہوگئی۔ آئندہ کی انسداد کے لئے رئیس الاطباء ابن ثابت کے نام یہ حکم صادر کیا گیا کہ تمام اطبائے بغداد کا امتحان لیا جائے۔ جو امتحان میں کامیاب ہوں ان کو سند عطا کی جائے اور جو ناکامیاب ہوں ان کو علاج کرنے سے روک دیا جائے۔ بغرض مزید احتیاط سند میں اس امر کی تشریح بھی ہو کہ دارندہء سند کو فلاں فلاں قسم کے امراض کے معالجے کی اجازت ہے تاکہ وہ انہیں امراض کا علاج کرسکے جن سے اس کو پوری واقفیت ہو۔ ابن ثابت نے فرمان خلافت کی تعمیل کی اور کل اطبائے دار السلام کا امتحان لیا۔دارالخلافة کے دونوں حصوں میں جن اطباء کو سند عطا کی گئی ان کی تعداد کچھ کم نو سو تھی۔" سند کی قانونی ضرورت اُس زمانے میں اہل اسلام نے محسوس کی تو آج اور بھی ضروری ہے کہ ہر طرف دھوکے بازی کا بازار گرم ہے۔ غیر سند یافتہ طبابت کرنے والے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا اس طرح وہ خیانت کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں یا کم ازکم جاہل اطباء کے گروہ کی امداد نہیں کر رہے ہیں؟

بہت سے فقہی مسائل میں 'ماہر طبیب کی رائے' کی قید جو لگائی گئی ہے اس میں غالباً ایک نکتہ یہ بھی علماءکے پیش نظر رہا ہوگا ہے کہ آنے والے دور میں نئے مشاہدات کی روشنی میں ممکن ہے امراض کی ماہیئت یا تشریح بدن زیادہ منقح و مصرح ہوجائے۔ ورنہ سینکڑوں علماء ایسے گزرے ہیں جو شریعت کے متبحر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عملاً پایے کے طبیب بھی تھے۔ وہ چاہتے تو اپنے زمانے کے علم طب کی روشنی میں بہت سے ایسے مسائل میں جن میں طب کی ضرورت ہوتی ہے بجائے 'ماہر طبیب کی رائے' لکھنے کہ مفصل طبی نکات لکھ جاتے۔

ماضی میں تجربات اتنے زیادہ نہیں ہوئے تھے جتنے آج ہوچکے لہذا ماضی کے تعلیمی طریقے اور اصول و قوانین کو آج کے دور پر پوری طرح منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں! ماضی و حال دونوں کی مفید ہدایات کو اس طرح ضم (Integrate) کیا جاسکتا ہے کہ افادیت کا پہلو بڑھ جائے اور مضرت کا کم سے کم ہوجائے۔

ایلوپیتھی کے علاوہ دوسری تمام طریقہ ہائے علاج (یونانی، آیوروید، ہومیو پیتھی وغیرہ) کے بارے میں یہ عوامی رجحان ہے کہ ان سے نقصان نہیں ہوتا لہذا کوئی شخص بھی تھوڑی بہت جانکاری حاصل کرکے ان کے ذریعے علاج کرسکتا ہے۔ یہ فکری بنیاد غلط ہے اور جہالت پر مبنی ہے۔ طب یونانی میں دواؤں کے چار درجات مقرر کئے گئے ہیں۔ تیسرے اور چوتھے درجہ کی دوائیں بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی تاکید ہے۔ کچھ دواؤں میں غذائی اجزاء ہوتے ہیں اور کچھ غذاؤں میں دوائی اجزاء ہوتے ہیں۔ مطلق غذا کے استعمال سے نقصان نہ ہونا سمجھا جائے تو کسی حد تک ٹھیک ہے ورنہ چاہے دوائے غذائی ہو یا غذائے دوائی یا مطلق دوا ہر ایک کی مضرت (Side Effect) بیان کی گئی ہے۔  مضرت سے اس وقت حفاظت ہوتی ہے جب بیمار اور بیماری کے مزاج کا خیال کرتے ہوئے مناسب کیفیت کی دوا مناسب مقدار میں دی جائے۔ اس کے لئے کم از کم طب کے بنیادی امور، علم منافع الاعضاء، علم تشریح، علم ماہیئت امراض، علم الادویہ، علم تشخیص، علم العلاج، علم الجراحت (Anatomy, Physiology, Patholgy, Pharmacology, Clinical Medicine, Surgery) سے واقفیت ضروری ہے۔ ورنہ جس طرح  لغت، حدیث، فقہ سے پوری واقفیت کے بغیر قران فہمی میں غلطیاں ہوں گی اور ایمان خطرے میں ہوگا اسی طرح درج بالا طبی علوم کے بغیر کوئی علاج شروع کردے تو مریضوں کی جان خطرے میں ہوگی۔

آج کل بہت سے عصری تعلیم یافتہ یا دینی تعلیم یافتہ یا دینی جذبات رکھنے والے افراد (جنھوں نے طبی کورس نہیں کیا ہے) یونانی یا ہومیوپیتھی یا حجامہ تھیراپی کی پریکٹیس کر رہے ہیں یا کسی طریقے سے علاج معالجے میں مصروف ہیں۔ ان کا یہ طرز بالکل درست نہیں ہے۔
اس زمانے میں یونانی علاج کرتے ہوئے ہائے بلڈپریشر، شوگر جیسے بہت سے امراض (جن کی وضاحت جدید طب سے ہوئی ہے) کا سمجھنا اور ان کے عوارضات کا خیال کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ مثلاً کچھ یونانی دوائیں پریشر کو بڑھاتی بھی ہیں۔
اس طرح حجامہ کے دوران مریض کو غشی بھی آسکتی ہے اور اگر ایسی جگہ کپ لگادیا گیا جہاں سے خون کی شریان (Artery) گزرتی ہے تو مریض کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کسی کسی شخص میں خون کی نسوں کا مقام طبعی طور سے مختلف بھی ہوتا ہے۔ کچھ بیماریوں میں ممکن ہے کسی مریض کا خون روکنا مشکل ہوجائے۔ ایسی صورتوں میں مریضوں کا جانی نقصان ظاہر ہے۔

ِِاِس دور میں مستند اور بنیادی طبی کورسیس سے فارغ اطباء کو یہ علوم پورے مستحضر نہ ہوں تب بھی ان سے بنیادی واقفیت ضرور رکھتے ہیں تجربہ یافتہ اطباء کی نگرانی میں علاج کرنا سیکھتے ہیں اور طب کی نئی تحقیقات و اضافے سے بھی انھیں آگاہی ہوتی رہتی ہے اور اتنی قابلیت ہوتی ہے کہ نئی تحقیقات اور اس کی عملی افادیت کو سمجھ سکیں۔وہ جانتے ہیں کہ ایمرجنسی حالات میں کونسی فوری طبی امداد (First Aid) دینی چاہیے اور مریضوں کو کب کہاں ریفر کرنا چاہئے۔ کسی شخص کے لئے اس دور میں عملاً یہ نا ممکن ہے کہ بغیر ان کورسیس کے وہ اس قابل ہوجائے۔

طب کا علم حاصل کرنے کی ترغیب سب کو دینی چاہئے کہ یہ ایک مفید علم ہے۔ اور دینی شعبوں کے لوگ اس سے واقفیت رکھیں تو طب کے نئے فقہی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں سہولت ہوگی۔ لیکن مقررہ طریقہء تعلیم سے گزرے بغیر معالجات کرنے سے روکنا ہی چاہئے۔ بلکہ وہ لوگ جو عوام میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہوں ان کو بدرجہء اتم اس سے رکنا چاہئے۔ واللہ المستعان۔

🖋 *ڈاکٹر محمد یاسر*
ریسرچ اسوسئیٹ
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین ممبئی۔
کنسلٹنگ یونانی فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر ممبئی۔
yasirm7@gmail.com

No comments:

Post a Comment