Friday, 26 January 2018

طب یونانی کا نظریہء مزاج اور عوامی صحت

*طب یونانی کا نظریہء مزاج اور عوامی صحت*

✒*ڈاکٹر محمد یاسر*
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین، ممبئی۔
کنسلٹنگ یونانی فزیشین : الحکیم یونانی میڈیکیئر سینٹر۔
yasirm7@gmail.com

مزاج کا بننا اور بگڑنا اس موضوع پر شروع کی گئی پچھلی بار کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے ذریعے جہاں ایک طرف یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ جدید ترین وسائل کے ذریعے خورد بینی سطح (Microscopic / Molecular Level) پر بیماریوں کے اسباب اور دواؤ ں پر تحقیقات کے سارے مراحل طئے کرلئے جائیں تاکہ علاج میں خطا کے امکانات ہی نہ رہیں ، وہیں ماہرین کا ایک گروہ اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ ایسی مختصر طبی ہدایات (Medical Guidelines) وضع کی جائیں جو عوام کے لئے سمجھنے میں انتہائی آسان ہوں جن کے ذریعے وہ اپنی صحت کی حفاظت کر سکیں اور بیماریوں سے روک تھام میں ان اصول و ضوابط کے پابند رہیں۔ اس طرح کی ہدایات معاشرے میں قبولیت حاصل کریں اس کے لئے بااثر شخصیات اور موثر ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ دونوں طرح کی محنتیں مفید اور ضروری ہیں۔ایک حقیقت یہ ہے کہ افراد سے جب معاشرہ بنتا ہے تو اس مجموعے میں عقلی قوت عمل کمزور پڑ جاتی ہے اور احساسات فعال ہوجاتے ہیں۔عقل پر جذبات کی اس فوقیت کی وجہ سے تعلیم یافتہ افرا د کبھی حیران ہوتے ہیں کبھی غصہ ہوتے ہیں لیکن ایسے رد عمل سے افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔لوگوں کے دلوں تک اپنی بات پہونچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انبیاء علیہم السلام کا طریق محنت یہی تھا کہ وہ دماغوں سے زیادہ دلوں پر محنت کرتے تھے۔
یہاں غور کرنے کی بات ہے کہ معاشرے میں پہلے سے رائج طریقہ ہائے علاج مثلاً طب یونانی کی اکثر تعلیمات ایسی ہیں جو عوام میں مقبول ہیں۔ ہاں کئی جگہ طبی علم کی کمی سے یہ تعلیمات کچھ بدل چکی ہیں۔ لیکن تھوڑی توجہ سے درست ہو سکتی ہیں اس لئے کہ مسلم معاشرے میں طب یونانی سے آج بھی محبت و عقیدت ہے۔اس عقیدت کا غلط فائدہ اٹھانے والے بہت سے لوگ اپنے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سنجیدگی کے ساتھ اس سماجی عقیدت کا صحیح استعمال کرکے معاشرے کوبے حد مفیدطبی تحفہ دیا جاسکتا ہے۔ دیکھئے میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے ہی گھروں میں جب بچے شوق سے کسی پھل کو زیادہ کھانے لگتے ہیں تو انھیں یہ کہا جاتاہے کہ بیٹا! یہ ٹھنڈا ہے زیادہ کھاؤ گے تو سردی ہوجائے گی۔ اسی طرح بڑی بوڑھیاں گھروں میں حاملہ عورتوں کو کہتی ہیں کہ فلاں چیزگرم ہے ، تم نہ کھانا یہ تمہیں نقصان کرے گی۔کسی غذا کے گرم مزاج کی وجہ سے اس کا حمل کے ایام میں باعث نقصان ہونے کا تصور طب یونانی سے ہی سماج میں آیا ہے۔ اس قسم کے بے شمارطبی تصورات اور جامع ہدایات ہیں جو معاشرے میں سرایت پذیر ہیں۔اس طب کی صحیح معلومات کو طب یونانی کے ان ماہرین کے ذریعے جو قدیم و جدید دونوں سے اچھی واقفیت رکھتے ہوں اگر عام کرنے کی کوشش کی جائے تو کم وقت میں معاشرے کو حفظان صحت کے زیادہ اصول سمجھائے جاسکتے ہیں اور ایک بڑی طبی ضرورت کم محنت سے پوری ہوسکتی ہے۔
مزاج اسی طرح کا اہم طبی تصور ہے۔اشیائے خورد و نوش کا مزاج یہ سمجھنے میں معاون ہے کہ ان کا استعمال بدن انسانی میں کن اثرات کو پیدا کر سکتا ہے اورانھیں کب کتنا استعمال کرنا چاہئے کب نہیں۔ آج کل تحقیقات کی اس قدر بھر مار ہے کہ عام آدمی تو دور ، ایک عام طبیب بھی حیران ہوجاتا ہے کہ کس کو مانے، کس کو چھوڑے؟ اگر کوئی غذا یا تدبیر کسی بیماری میں مفید پائی گئی ہے تو وہی مضر بھی ثابت کر دی گئی ہے۔آپ یہ پڑھ کر پریشان نہ ہوں ۔ ترقی کے اس دور میں ہر چیز ممکن ہے۔ ایسے حالات میں یونانی طب آپ کے لئے رہنما ہے جودنیا میں سب سے زیادہ طویل مدت کے تجربات پر مبنی ہے اور سب سے زیادہ قوموں اور علاقوں پر آزمائی گئی ہے ۔
موسموں کا مزاج حسب ضرورت مختلف مفید تدابیر اختیار کرنے میں رہنمائی کرتا ہے تاکہ موسموں کی مضرت اور اس میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ماضی قریب کا یہ واقعہ کتابوں میں درج ہے کہ مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب کے زمانے میں ایک علاقے میں وباء پھیلی۔ حکیم صاحب نے اس بیماری اور موسم کے مزاج کوسمجھتے ہوئے چند دواؤں پر مشتمل ایک آسان سا نسخہ تجویز کیا۔ایک رفاہی تنظیم نے اسے عوام میں مفت تقسیم کیاجس کی بدولت نہ صرف اس وباء سے حفاظت میں بہت مدد ملی بلکہ کئی مریضوں نے شفاء بھی پائی۔
پھر مختلف انسانوں کا مختلف مزاج عمر کے مختلف مراحل بچپن ، جوا نی اور بڑھا پے میں بدلنے کے باوجو د کلی طور سے ہر ایک فرد میں ایک انفرادی امتیاز رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے جہاں کسی شخص کی حرکات و سکنات ، ذہنی کیفیت، طبعی افعال اورحالت صحت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے وہیں یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کن امراض سے جلد متاثر ہو سکتا ہے اور ان سے بچاؤ کی کیا صورت ممکن ہے۔بہت سے ہارمون (Hormone)کی غیرطبعی مقدارسیہونے والے امراض کے علاوہ کچھ جنینی(Genetic) امراض کا اندازہ اور ان سے حفاظت و علاج کے لئے بھی مزاج معاون ہے۔ اس کو سطحی طور سے سمجھنے کے لئے مثال یہ سمجھئے کہ کوئی آلہ یا سامان تین مختلف مادوں (Material) سے بنایا گیا ہو ایک لکڑی کا ہو ایک لوہے کا اور ایک پلاسٹک کا ۔ اور تینوں ایک ہی مقصدکے لئے استعمال ہوسکتے ہوں تو جاننے والے کہتے ہیں کا تینوں میں کس کا کون سا کام اچھا ہے کون سا خراب، کون زیادہ پائیدار ہے اور کون کم، کون استعمال میں آسان ہے اور کون مشکل۔ کس میں کیا خرابی پیدا ہوتی ہے اور کیسے دور ہوتی ہے ۔ اس کے ماہرین یہ بھی بتادیتے ہیں کہ کس شخص کے لئے کون سے مٹیریل سے بنا ہوا سامان لینا بہتر ہوگا۔ انسانی مزاج بھی اسی سے کچھ سمجھا جاسکتا ہے لیکن اس میں زندہ جاندار ہونے کے اعتبار سے مزید تفصیلات ہیں۔
خلاق عالم نے انسانی تخلیق کے وقت عناصر کے امتزج کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مزاج اور جنینی تقدیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

خَلَقَہٗ  فَقَدَّرَہٗ  (اسے پیدا بھی کیا، پھر اس کو ایک خاص انداز بھی دیا۔)

اس جامع لفظ ’خاص انداز‘ سے( آگ، ہوا ، پانی ، مٹی جیسی مختلف کیفیات والی چیزوں پر منحصر) انسان کے پیدا ہونے کے وقت ہی امتزاجی کیفیت سے دجود میں آنے والے تقدیری احوال کی پیش گوئی کردی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تقدیر کی وہ قسم ہے جس کا تعلق جنینیات (Genetics) سے ہے۔ علم جنین کی تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ بطن مادر میں ہی جب انسانی مادہ وجود میں آتا ہے اسی وقت انسان کے کروموزوم اور ڈی این اے بنتے ہیں جو اس انسان کی جسمانی ساخت، افعال کی نوعیت اور دوسرے انسانوں سے ممتاز بہت سی صفات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔پچھلی دفعہ عناصر اربعہ سے انسانی تخلیق اور مزاج کے وجود میں آنے کی جوبحث کی گئی تھی اسے آج کے مضمون سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ مزاج کا تصور جنینیات کو سمجھنے میں بھی معاون ہے۔ گویا سماج میں طبی بیداری پیدا کرنے کے لئے ہمیں کئی مشکل مباحث سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ضرورت ہے کہ جدید طب کی پریکٹس کرنے والے بھی اسے سمجھ کر اپنی پیتھی کے ساتھ ضم(Integrate) کریں اورطب یونانی کے اس نظریہء مزاج کو عام کیا جائے۔

No comments:

Post a Comment