*غذا اور پانی کے استعمال کے سلسلے میں زکریا رازی کی ہدایات*
تحریر: ڈاکٹر محمد یاسر
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر
ابوبکر محمد بن زکریا رازی مشہور یونانی طبیب گزرے ہیں۔انھوں نے طب یونانی میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ اسپتال کی نگرانی، مریضوں کی دیکھ بھال، اور انتظام و انصرام میں ان کی حکمت عملی بعد کے اطباء کے لئے نشان راہ بنی۔اسپتال کے لئے صحت مند جگہ کا انتخاب، طبیبوں کی عملی تعلیم کے لئے ان کے مختلف درجات کی تقسیم، مرض کی روداد (Disease History) اور متعلقات مرض کے موجودہ ضابطے جو آج کل ڈاکٹر س اپناتے ہیں زیادہ تر رازی کی جدت طبع ہی کے مرہون منت ہیں۔ ا نھوں نے دواؤں کے اثرات اور ہرقسم کی تبدیلیوں کو قلمبند کرنے کی بنیاد ڈالی۔ ابتدائی طبی امداد (Firs Aid) کا طریقہ پہلی مرتبہ انھوں نے ہی اختیار کی اور برء السا عۃ نامی کتاب بھی اس موضوع پر لکھی۔فن طب میں ان کا بڑا کارنامہ مرض چیچک اور خسرہ پرتحقیق اور دونوں میں تفریق ہے۔ یہچند باتیں اس مقصد سے لکھی گئیں کہ ان کے طبی مقام کا اندازہ ہوسکے۔ ان کی اہم تصنیفات میں سے کتاب الحاوی کے علاوہ کتاب المنصوری بھی ہے۔ اس موخر الذکر کتاب سے جو اختصار کے ساتھ لکھی گئی ہے کھانے پینے کے متعلق اہم ہدایات یہاں بیان کی جارہی ہیں۔آج کل سوشل میڈیا پر صحت کے متعلق بہت سی ایسی باتیں مختلف عنوانات سے اور مختلف ڈاکٹروں کے حوالے سے پھیلائی جارہی ہیں جو نہ سر رکھتی ہیں نہ پیر۔ بھولے بھالے کم پڑھے لکھے افراد کو چھوڑیے، بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی اسے صحیح سمجھ کر آگے فارورڈ کردیتے ہیں اور یہ اندازہ بھی نہیں کرتے کہ اگلے لوگ اس پر عمل کرکے کہیں اپنی صحت خراب نہ کرلیں۔
غذا کے متعلق رازی نے لکھا ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ آدمی اس وقت کھانا کھائے جب پہلے کھانے کا بوجھ کم ہوچکا ہو۔اور پیٹ میں ہلکا پن محسوس ہونے لگے اور خوب بھوک لگ جائے۔ اسی طرح اگر شدت کی بھوک لگی ہو تو کھانا کھانے میں قطعی دیر نہ کرے لیکن کھانے پر ٹوٹ کر بھی نہ گرے۔ کھانے سے شکم کو کبھی اتنا پر نہیں کرنا چاہئے کہ معدہ میں تناؤ عارض ہوجائے یا اس میں بھاری پن محسوس ہونے لگے اور سانس میں تنگی ہونے لگے اگر اس قدر کھالیا ہو کہ بھوک لگنا بند ہوگئی ہو (جیسا کہ دعوتوں میں کھانے کے بعد اکثروں کو پیش آجاتاہے)تو ایسی صورت میں اسے سکنجبین یا گرم پانی لینا چاہیے اور حرکات بڑھانی چاہیے (یہ زیادہ کھالینے کے مضر اثرات کو دور کرنے کے لئے ہے) نیز اگلی خوراک اس وقت تک نہ لیں جب تک قئے یا اسہال نہ ہوچکا ہو یا یہ کہ بھوک خوب اچھی طرح نہ لگ جائے۔
ہر آدمی کے لئے ضروری ہے کہ مناسب غذاؤں میں سے عادت کے مطابق خاص مقدار متعین وقت پر کھایا کرے۔اگر بالفرض اس نے باربار کھانے کی عادت ڈال رکھی ہو تو بتدریج کم کرنا چاہیے۔ایک تندرست آدمی کو دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اور زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ کھانا کھانا چاہیے۔ سب سے زیادہ متوازن طریقہ یہ ہے کہ دو دن میں تین مرتبہ کھانا کھایا جائے۔ (دیکھئے ہم لوگ دو دن کی غذا ایک دن میں کھالیتے ہیں،اسی پر خوری کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں سے سب لوگ پریشان ہیں۔)کمزور اور خشک بدن لوگوں کو محض ایک دفعہ کھانا کافی نہیں ہے۔ اسی طرح بھاری جثہ کے آدمی کے لئے دو دفعہ کھانا نقصان دہ ہے۔جو آدمی بہت زیادہجسمانی کام کرتا ہے اس کے لئے غذا کی مقدار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کے برعکس صورت میں غذا ہلکی اور کم مقدار میں لینی چاہیے۔ ہر آدمی کو اپنی اپنی عادت کے موافق مناسب خوراک لینی چاہیے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ردی قسم کی غذا کچھ لوگوں کو موافق آجاتی ہے ان کے لئے دوسروں کی طرح اس سے پرہیز ضروری نہیں ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ اچھی چیزیں کسی خاص آدمی کے مزاج کے موافق نہیں ہوتیں اور وہ ان سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مناسب غذاؤں کے ذیل میں وہ تمام چیزیں آتی ہیں جن کی طرف طبیعت کا میلان ہوتا ہے خواہ وہ موذی اور ردی کیوں نہ ہوں۔ میلان طبیعت کی وجہ سے یہ غذائیں موافق آجاتی ہیں بشرطیکہ ان میں خرابی زیادہ نہ ہو۔لیکن ان ردی غذاؤ ں کے مسلسل استعمال سے بھی بہر حال پرہیز کرنا چاہئے یا پھر اس طرح کی غذا لیتے وقت اس کے ساتھ کوئی مصلح لے لیا جائے جو اس غذا کے خراب اثرات کو دور کردے۔
جن اسباب سے ہضم میں فساد آجاتا ہے وہ یہ ہیں، ایک وقت میں مختلف چیزیں کھائی جائیں، بھاری غذا ہلکی غذا سے پہلے لی جائے،طرح طرح کے کھانے ایک ساتھ کھائے جائیں، کھانے کی مدت اتنی بڑھادی جائے کہ شروع کرنے اور ختم کرنے میں خاصا وقت لگ جائے۔ کھانا موسم گرما میں ٹھنڈا اور سردی میں گرم ہونا چاہیے۔لیکن اس امر کی رعایت بہرحال ضروری ہے کہ کھانا سردی میں اتنا گرم نہ ہوکہ چولہے سے اترتے ہی کھالیا جائے اور نہ گرمی میں انتہائی ٹھنڈا کھانا کھایا جائے۔ کھانے کے مناسب ترین ٹھنڈے اوقات(صبح اور شام) ہیں۔تازہ پھل غذا کھانے سے پہلے کھالینا چاہیے اور اگر پھل ترش اور دیر ہضم ہوں جیسے انار وغیرہ تو ان کو کھانے کے بعد لینا مناسب ہے۔اگر ایک روز ثقیل غذا لی گئی ہو تو اگلے روز ہلکی غذا لینی چاہیے۔
پانی پینے کے سلسلے میں حسب ذیل امور کی رعایت ضروری ہے۔نہار منہ پانی نہ پیا جائے، دسترخوان پر یعنی کھانے کے دوران پانی بقدر ضرورت ہی پینا چاہئے کیونکہ اس وقت تھوڑا پانی ہی کافی ہوتا ہے۔اگر کھانے کے فوراً بعد پئیں تو اسی قدر جس سے کہ پیاس کی تسکین ہوجائے۔ سیر ہوکر پانی اسی وقت پئیں جب کہ غذا معدہ سے نیچے اتر چکی ہو۔کمزور اعصاب کے لوگوں کو اور جن کا ہاضمہ ضعیف ہو ان کو برف سے ٹھنڈا کیا ہوا پانی نہیں پینا چاہیے۔ سرخ و توانا اور گرم مزاج لوگوں کو برف کا پانی پینے میں کوئی حرج نہیں۔ غسل، جماع اور محنت یا ورزش کا کام کرنے کے بعد ایک ہی سانس میں بہت زیادہ ٹھنڈا پانی نہیں پینا چاہیے بلکہ وقفہ وقفہ سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ پینے چاہئیں۔ اگر کبھی بہت زیادہ پانی پی لینے کے بعد بھی پیاس میں اضافہ اور شدت ہوتی رہے تو اس صورت میں صبر کرنا چاہیے اور پانی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھانا چاہئے کیونکہ صرف اسی طرح پیاس میں کمی ہوسکتی ہے۔ جو لوگ وہاٹس ایپ وغیرہ پر نہار منہ پانی پینے کے فوائد پڑھ کر اپنی صحت خراب کررہے ہوں ان سے درخواست ہے کہ طبیب سے مشورہ کرکے ہی اس پرعمل کریں۔صحت کے متعلق کوئی بھی سوال آپ کے ذہن میں ہو تو آپ www.unanihakeem.in پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment