*یقین جانیں،صحت مند رہنا بہت آسان ہے۔*
✒: ڈاکٹر محمد یاسر
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر
جہاں آجکل بیماریوں کی کثرت ہوئی ہے وہیں بیماریوں سے خوف بھی بہت بڑھ گیا ہے۔اگرچہ یہ فطری بات ہے کہ ہر مضر چیز سے انسان ڈرتا ہے لیکن کئی مرتبہ یہ ڈرنا مفید نہیں ہوتا ۔دوسری بات یہ کہ اس دور میں بیماریوں کا ڈر فطری ضرورت سے زیادہ نظر آتا ہے۔ تجارتی کمپنیاں اور دیگر بہت سے طبی اشتہارات اس خوف کے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بری عادتوں اور پرہیز نہ کرنے کی ہم ترغیب نہیں دے رہے ہیں بلکہ عوام میں بیماریوں سے بے جا خوف اورمریضوں میں لا علاج ہوجانے کے احساس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہر انسانی بدن میں صحت مند رہنے اور بیماریوں سے مدافعت (لڑنے) کی ایک قوت اللہ رب العزت نے رکھی ہے جسے طب یونانی میں ’ طبیعت یا قوت مدبرہ ء بدن‘ کہا جاتا ہے اور اسی کا کچھ حصہ جدید اصطلاح میں Immunity کہلاتا ہے۔ بقراط کا قول ہے کہ یہ طبیعت بیماریوں کا علاج کرتی ہے اور طبیب کا کام اسی طبیعت کی امداد کرناہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے امراض بغیر علاج کے بھی محض طبیعت کے عمل سے اچھے ہوجاتے ہیں۔اس لئے مذہب اسلام میں بیماروں کو بڑی امید دلانے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔سوچیں اور بار بار سوچیں کہ اس ایک جملہ میں جو مریضوں کی عیادت کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کتنی دل بستگی اور امید کا سامان ہے۔فرمایا:
*لا بأس طہور ان شاء للہ* (کوئی فکر کی بات نہیں ان شاء للہ صحت ہوجائے گی)
انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ تغیر پذیر ہے کبھی موسم بدلتا ہے تو کبھی انسانی نفسیات میں فرق آتا ہے اور کبھی غذا ؤں میں تبدیلی ہوتی ہے تو کبھی جسم کی حرکات و سکون کم و بیش ہوتی ہیں۔اس لئے انسان ہمیشہ صحت اور بیماری کے درمیان ایک Spectrum میں رہتا ہے اور طبیعت اس کی امداد میں سرگرم رہتی ہے۔ کوئی شخص ایک ہی حالت میں مستقل نہیں رہتا۔ بیماری لگتی بھی ہے اور دور بھی ہوجاتی ہے۔ اس لئے منفی ذہن بناکر بیماریوں سے خوف کرنے کی بجائے مثبت ذہن سے ہمیشہ صحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صحت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم ایک دلچسپ بات آپ سے شیئر کریں کہ جو طلباء طب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ظاہر ہے انھیں تعلیم کے ساتھ عملی مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے۔ جس سال وہ بیماریوں کی علامات اور علاج پڑھتے ہیں انھیں اس بات کی عادت ہوجاتی ہے کہ وہ آنے والے ہر مریض میں اپنی پڑھی ہوئی علامات دیکھیں۔ چنانچہ کئی بار ایسے طلباء عام مریضوں میں پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی فکر کرنے لگتے ہیں۔ اساتذہ اس بات کو سمجھتے ہوئے بار بار یاد دہانی کراتے ہیں کہ پہلے عام بیماریوں کے بارے میں سوچیں پھر کم وقوع پذیر بیماریوں کے بارے میں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ طلباء بہت سی علامتوں کو اپنے اندر بھی محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ جو بیماری پڑھیں انھیں محسوس ہو کہ یہ میرے اندر تو نہیں۔ یہ دراصل کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ خوف ہوتا ہے ۔ اسی خوف کا نام کچھ اساتذہ نے Final Year Syndrome بھی رکھا ہے۔ یہ بات ہم نے اس لئے بھی بیان کردی کہ انٹر نیٹ پر گوگل بک سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد میں اب بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔ استاد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی نفسانی کیفیت کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔خود کو بیماریوں کا مجموعہ سمجھ کر بازاری طبیبوں سے آن لائن دوائیں خریدنے والے ان بے چاروں کے جہل مرکب پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے طبی محققین اب اس بات پر غور کررہے ہیں کہ عوام میں بیماریوں کی زیادہ تفصیل بیان کرنے سے بہترہے کہ صحت کے حصول کے طریقے بتائے جائیں اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ہمت پیدا کی جائے۔ بہت سے تجربات سے اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ جو لوگ قوی ہمت رکھتے ہیں وہ بیمار کم پڑتے ہیں ۔ اسی طرح جو مریض ،صحت حاصل کرلینے کی قوی امید رکھتے ہیں وہ جلد صحت یاب ہو بھی جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر سے بہتر علاج کرتے ہوئے مریضوں کو صحت کی امید دلائیں اگرچہ مرض لاعلاج ہو۔ زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ کہلوایا گیا
*لکل داء دواء فاذا أصیب دواء الداء برأ باذن اللہ* (ہر مرض کا علاج ہے اور جب دواء بیماری کے موافق مل جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفاء ہوجاتی ہے۔ )
اس میں جہاں اطباء کے لئے بنی نوع انسان کو لاحق ہونے والی ہر بیماری کے علاج کی جستجو اور تحقیق کی دعوت فکر ہے وہیں مریضوں کو اطمینان بھی دلایا گیا ہے کہ مایوسی کو قریب نہ آنے دیں اور علاج میں ہمت سے جٹے رہیں۔کہا جاتا ہے کہ طبیب ایسا ہو کہ آدھی بیماری صرف اس سے ملنے سے ٹھیک ہوجائے۔ مطلب یہ کہ وہ ڈاکٹر اس قدر امید افزاء بات چیت کرے کہ مریض کو جلد ہی اپنی مکمل صحت کی امید ہوجائے۔ اس سلسلے میں مریضوں کو بھی اطباء کا تعاون کرنا چاہیے۔دیکھا یہ جاتا ہے کہ مثلاً ایک مریض کو تین شکایات تھیں اور کچھ علاج کے بعد دو شکایات ختم ہوگئیں ایک رہ گئی تو مریض آکراس ایک شکایت کے بارے میں یوں گویا ہوتا ہے ’’ڈاکٹر صاحب تکلیف جیسی تھی ویسی ہی ہے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ استفسار پر معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک تکلیف رہ گئی ہے۔ اس طرح کی منفی ذہنیت سے مریضوں کو صحت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔اس کے بالمقابل کچھ مریض صحت میں آنے والے سدھار کا تذکرہ کرتے ہیں اوربقیہ تکالیف پوچھنے پر بتاتے ہیں ان کا مثبت انداز انھیں خود بھی فائدہ دیتا ہے اور طبیب بھی ایسے مریضوں کا شوق سے علاج کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مرض کاکامیاب علاج یک طرفہ نہیں ہوسکتا بلکہ طبیب و مریض دونوں کی پر عزم مشترکہ متحدہ مثبت محنت سے ہوتا ہے۔
اس مصروف زندگی میں ہمیں صحت کے حصول کو بھی اپنے کاموں میں ایک اہم کام گننا چاہیے اور اس کے لئے شوق و توجہ سے وقت دینا چاہیے۔اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کو بھی بہتر بنانا چاہیے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ اچھے خیالات و جذبات والے لوگ اچھے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ اور اچھے اخلاق والے زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ذہنی و نفسیاتی الجھنوں سے دور رہتے ہیں۔خود کو نفسیاتی طور سے مضبوط بناناچاہیے۔شکر و قناعت کی صفات انسان کی آدھی بیماری دور کردیتی ہیں۔اس طرح ہم بہت سے امراض سے خود ہی بچ سکتے ہیں۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ گھروں میں عورتوں کے بیمار ہونے کا تناسب زیادہ ہے۔اس کی وجہ صنف نازک کی صحت کی طرف سے بے توجہی کے علاوہ ان کی کم ہمتی بھی ہے ۔ ان کی نفسیاتی کمزوری انھیں زیادہ بیمار کردیتی ہے۔ قدرت نے ہمیں ایک نعمت توافق (Adoptation) کی عطا فرمائی ہے ۔ جب کوئی مصیبت انسان پر پڑتی ہے تو کچھ عرصہ اس سے پریشان ہوکر گویا اس کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ مثلاً کسی کو فالج ہوجائے تو اچانک سے اس تبدیلی پر اسے سخت غم ہوتا ہے لیکن پھر وہ اسی طرح زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ اس توافق کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس سے بڑے بڑے مسائل چھوٹے معلوم ہونے لگتے ہیں۔یہ بات بھی یاد رہے کہ مکمل صحت حاصل کرنے کے لئے پریشان ہونے کی بجائے موجودہ حالت صحت سے کچھ بہتری حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ آسان ہو۔اس طرح درجہ بدرجہ بہتری کا حصول آسانی سے ممکن ہے۔جدید دور میں صحت کے حصول کے اس مثبت طریقے کو Salutogenesis کا نام دیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment