✒۔۔ *ڈاکٹر محمد یاسر*
ایم ڈی (معالجات)
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر، ممبئی۔
طب یونانی کے مطابق صحت کی حفاظت اور امراض سے بچاؤ کے لیے روزمرہ کی زندگی میں ان چھ چیزوں کا اعتدال پر ہونا نہایت ضروری ہے جو اسباب ستہ ضروریہ کہلاتے ہیں۔یہ نکات اطباء نے طویل غور و فکر کے بعد اختصار اور جامعیت کے ساتھ عوام کی سہولت کے لئے وضع کئے ہیں جو تھوڑی سی وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔
۱۔ ہو ا (جو صاف اور تازہ ہو)۔ آلودہ ، زیادہ سرد اور زیادہ گرم ہوا سے بچنا۔
۲۔ پانی اور کھانے کی چیزیں۔صاف اور تازہ پانی معتدل مقدار میں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرنا۔بھوک سے تھوڑا کم کھانا۔ ( اس زمانے میں تمباکو اور زیادہ چائے یا کولڈرنک سے پرہیز کرنا بھی اس میں شامل ہے)
۳۔ جسمانی حرکات اور جسمانی سکون۔ چہل قدمی اور ورزش کر نا اور بدن کو کچھ وقت آرام دینا۔
٤۔ اچھے جذبات اور دماغی سکون۔ خیالات کو نیک اور مثبت بنانا۔خوش رہنا اور ذہنی کو سکون فراہم کرنا۔
۵۔ نیند جو روزآنہ ۶ سے ۸گھنٹے رات کے وقت اچھی طرح ہو (مزاج اور موسم کی مناسبت سے وقت میں فرق ہوتا ہے) ۔ کم سونے اور زیادہ سونے سے بچنا۔
٦۔جسم کے خراب مادوں مثلاً پیشاب پاخانہ کا اور خون کے اور اعضاء بدن کے فاسد مواد کا بدن سے نکالنا۔ اسی طرح جسم کی اچھی رطوبات کا بدن میں روکے رکھنا۔
ہماری طرز زندگی بدل جانے کی وجہ سے اور صحیح الفاظ میں بگڑ جانے کی وجہ سے ہم لوگ ان اہم نکات کا پورا خیال نہیں کرتے۔آرام پسندی، خواہشات کی پیروی، معاشی مصروفیات اور رائج الوقت عادات کی غلامی جیسی خرابیاں اس بگاڑمیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا، ہارٹ اٹیک، کینسر، دمہ ، دماغی امراض اور جوڑوں کے درد وغیرہ بیماریوں کا جو Lifestyle Diseases کہلاتی ہیں بڑھتا ہوا گراف ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ نہ صرف ان بیماریوں سے بلکہ بہت ساری متعدی(Infectious) بیماریوں سے بچنا بھی ان چھ باتوں پر عمل کرکے نہایت آسان ہے۔ اگر شروع ہی سے اس پر ہم عمل پیرا رہیں اورتھوڑی بہت اختیاری یا غیر اختیاری بے احتیاطی ہوجائے تو مناسب تدبیر کے ذریعے صحت لوٹائی جاسکتی ہے۔
طب یونانی کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ کسی مرض کا علاج مقصود ہوتو اس میں کوشش کی جائے کہ بغیر دوا کے کسی مناسب تدبیر سے شفاء ہوجائے۔اگر اس طرح علاج ممکن نہ ہو تو بقدر ضرورت دواء استعمال کی جائے اور دوا سے بھی جب کام نہ چلے تب عمل جراحت یعنی سرجری کی جائے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ طب یونانی میں علاج کی سمت سب سے پہلا قدم دوا نہیں بلکہ ’ تدبیر‘ ہے۔ لفظ تدبیر جہاں بھی استعمال ہوتا ہے ذہن و دل میں یہ بات آتی ہے کہ یہ کوئی ایسا عمل ہے جس میں عقل کا استعمال کرکے محدود وسائل کے ذریعے مسائل کو سلجھا لیاجائے۔ جب ہم کسی معاشی یا سماجی یا سیاسی مسئلے میں پریشان ہوتے ہیں تواس سے خلاصی کی تدبیریں سوچتے ہیں ۔ بعینہٖ یہی صورت علاج معالجے میں ہوتی ہے۔بیرونی ہوا کی کیفیت یا علاقہ بدل کر، پانی اور غذا میں تبدیلی کے ذریعے، مناسب ورزش یا آرام سے، نفسیاتی علاج کرکے، نیند یا جاگنے کو اوقات میں تبدیلی کرکے اور پیشاب، پاخانہ، پسینہ وغیرہ فضلات بدن کے مناسب اخراج کے طریقے اختیار کرکے بیماری دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یونانی طبیب ان ہی چھ نکات (اسباب ستہ ضروریہ ) میں غور کرکے ان میں مناسب تصرف کرتا ہے جسے علاج بالتدبیر کہتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ رات کے وقت زیادہ جاگتے ہیں (خواہ رات کی ملازمت کی وجہ سے جاگنا ہو یا طلبہ کا امتحان کی تیاری میں مطالعہ کی غرض سے جاگنا ہو) ان میں ہضم کا نظام بگڑنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں طبیب درج بالا بیان کیے گئے دوسرے نکتے ’پانی اور کھانے کی چیزیں‘ اور پانچویں نکتے ’نیند‘ میں تدبیر کرتا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سناتا چلوں جس سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ ایران کے نادر شاہ درانی نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور دلی کو تخت و تاراج کرکے واپس لوٹ رہا تھا تب اسے بے خوابی(نیند نہ آنا) یا درد سر نے آگھیرا۔ واپسی میں جہاں اس نے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ لی تھیں وہیں دلی کے ماہرین علوم و فنون کو بھی لے لیا تھا۔ ظالم اس بیماری کے حال میں بھی سخت مزاج تھا۔حکم دیا کہ دلی کے جو طبیب ہمارے ساتھ لیے گئے ہیں انھیں حاضر کیا جائے۔ حکیم علوی خان حاضر کیے گئے۔ بادشاہ نے اپنا عجیب حکم سنایا کہ میرا علاج کرو لیکن شرط یہ ہے کہ نہ تو میں کوئی دوا کھاؤں گا نہ کوئی دوا لگاؤں گا اور نہ نبض وغیرہ دکھاؤں گا۔ اگر تم علاج میں کامیاب نہ ہوئے تو تمہاری خیر نہیں۔ شاہی حکم نامہ سن کر حکیم صاحب نے اپنی حذاقت سے بادشاہ کا معائنہ کرنے کے بعد علاج شروع کیااور دماغ کے مزاج کی گرمی و خشکی کے ازالہ کے لئے انھیں اسباب ستہ ضروریہ میں تبدیلی کی۔ خادموں سے کہا کہ گلاب سے بنے ہوئے پنکھے کو عطر خس سے معطر کرکے بادشاہ کو ہوا دی جائے۔ حکیم صاحب کی تجویز کے مطابق عمل شروع ہوا ۔ چند ساعتیں گزریں تھیں کہ بادشاہ کو جھپکی لگ گئی۔ سینکڑوں انسانوں کا خون کرکے کئی دنوں سے جاگنے والا جب سویا تو دیر تک سویا رہا اور جب اٹھا تو اسے بیماری کا مطلق اثر محسوس نہ ہوا۔ بادشاہ نے حکیم علوی خاں کی دانائی کی تعریف کی اور ان کی خواہش کے مطابق اعزاز و اکرام کے ساتھ دلی واپس کیا۔ اس قسم کے واقعات علاج بالتدبیر کے ذریعے بکثرت پیش آتے ہیں۔
طبیب اپنی ذہانت، تجربے اور طبی علوم کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی تدبیر متعلقہ مرض میں تیر بہدف ثابت ہوگی۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ حسن تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقلمندی نہیں۔حکماء کی نصیحت ہے اور جدید دور کے ماہرین طب بھی اس بات کو شد و مد سے کہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے دواؤں سے احتیاط ہی کرنی چاہیے اگرچہ وہ دوائیں جڑی بوٹیوں سے بنی ہوں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ہر مرض کا علاج بغیر دوا کے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مریضوں کو اس بات پر اصرار کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ عموماً یونانی طبیبوں کے پاس لوگ اس وقت پہنچتے ہیں جب بیماری اچھی خاصی بڑھ چکی ہوتی ہے اور ایلوپیتھی علاج سے فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ مزید پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ دل چاہتا ہے ایسے مریضوں سے کہا جائے کہ
حکیم تیری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں ایلوپیتھی کی تدبیریں
ظاہر ہے ایسی صورت میں بغیر دوا کے صرف تدبیر کا کارگر ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اگر بیماری کی پہلی علامت آتے ہی یونانی حکیموں سے مشورہ کرلیا جائے تو نہ صرف جلد شفاء کی امید ہے بلکہ محفوظ علاج ہونے کی وجہ دواؤ ں کے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔لیکن طب یونانی میں ان پیچیدہ امراض کے علاج کے لئے بھی اصول و ضوابط ہیں جن کی روشنی میں بہتر کوشش کی جاتی ہے اور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو بیماریاں سرجری یعنی آپریشن کی محتاج ہوتی ہیں ان میں بھی خواہ مخواہ لوگ دوائیں استعمال کرکے علاج کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ سارے فیصلے خود کرنے کی بجائے سند یافتہ ماہر اطباء اور حکماء پر چھوڑدینے چاہئیں۔
طب یونانی میں موجود تدابیر بے شمار ہیں جن میں سے چندتدبیریں زیادہ مستعمل ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ مالش، حمام، نطول، حجامہ، فصد، ارسال علق، ریاضت (ورزش)، تکمید، پاشویہ، آبزن، انکباب، شموم، قئے، تعریق وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔