Thursday, 22 February 2018

*حُسن تدبیر سے علاج*


✒۔۔ *ڈاکٹر محمد یاسر*
ایم ڈی (معالجات)
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر، ممبئی۔

طب یونانی کے مطابق صحت کی حفاظت اور امراض سے بچاؤ کے لیے روزمرہ کی زندگی میں ان چھ چیزوں کا اعتدال پر ہونا نہایت ضروری ہے جو اسباب ستہ ضروریہ کہلاتے ہیں۔یہ نکات اطباء نے طویل غور و فکر کے بعد اختصار اور جامعیت کے ساتھ عوام کی سہولت کے لئے وضع کئے ہیں جو تھوڑی سی وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔

۱۔ ہو ا (جو صاف اور تازہ ہو)۔ آلودہ ، زیادہ سرد اور زیادہ گرم ہوا سے بچنا۔

۲۔ پانی اور کھانے کی چیزیں۔صاف اور تازہ پانی معتدل مقدار میں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرنا۔بھوک سے تھوڑا کم کھانا۔ ( اس زمانے میں تمباکو اور زیادہ چائے یا کولڈرنک سے پرہیز کرنا بھی اس میں شامل ہے)

۳۔ جسمانی حرکات اور جسمانی سکون۔ چہل قدمی اور ورزش کر نا اور بدن کو کچھ وقت آرام دینا۔

٤۔ اچھے جذبات اور دماغی سکون۔ خیالات کو نیک اور مثبت بنانا۔خوش رہنا اور ذہنی کو سکون فراہم کرنا۔

۵۔ نیند جو روزآنہ ۶ سے ۸گھنٹے رات کے وقت اچھی طرح ہو (مزاج اور موسم کی مناسبت سے وقت میں فرق ہوتا ہے) ۔ کم سونے اور زیادہ سونے سے بچنا۔

٦۔جسم کے خراب مادوں مثلاً پیشاب پاخانہ کا اور خون کے اور اعضاء بدن کے فاسد مواد کا بدن سے نکالنا۔ اسی طرح جسم کی اچھی رطوبات کا بدن میں روکے رکھنا۔

ہماری طرز زندگی بدل جانے کی وجہ سے اور صحیح الفاظ میں بگڑ جانے کی وجہ سے ہم لوگ ان اہم نکات کا پورا خیال نہیں کرتے۔آرام پسندی، خواہشات کی پیروی، معاشی مصروفیات اور رائج الوقت عادات کی غلامی جیسی خرابیاں اس بگاڑمیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا، ہارٹ اٹیک، کینسر، دمہ ، دماغی امراض اور جوڑوں کے درد وغیرہ بیماریوں کا جو Lifestyle Diseases کہلاتی ہیں بڑھتا ہوا گراف ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ نہ صرف ان بیماریوں سے بلکہ بہت ساری متعدی(Infectious) بیماریوں سے بچنا بھی ان چھ باتوں پر عمل کرکے نہایت آسان ہے۔ اگر شروع ہی سے اس پر ہم عمل پیرا رہیں اورتھوڑی بہت اختیاری یا غیر اختیاری بے احتیاطی ہوجائے تو مناسب تدبیر کے ذریعے صحت لوٹائی جاسکتی ہے۔

طب یونانی کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ کسی مرض کا علاج مقصود ہوتو اس میں کوشش کی جائے کہ بغیر دوا کے کسی مناسب تدبیر سے شفاء ہوجائے۔اگر اس طرح علاج ممکن نہ ہو تو بقدر ضرورت دواء استعمال کی جائے اور دوا سے بھی جب کام نہ چلے تب عمل جراحت یعنی سرجری کی جائے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ طب یونانی میں علاج کی سمت سب سے پہلا قدم دوا نہیں بلکہ ’ تدبیر‘ ہے۔ لفظ تدبیر جہاں بھی استعمال ہوتا ہے ذہن و دل میں یہ بات آتی ہے کہ یہ کوئی ایسا عمل ہے جس میں عقل کا استعمال کرکے محدود وسائل کے ذریعے مسائل کو سلجھا لیاجائے۔ جب ہم کسی معاشی یا سماجی یا سیاسی مسئلے میں پریشان ہوتے ہیں تواس سے خلاصی کی تدبیریں سوچتے ہیں ۔ بعینہٖ یہی صورت علاج معالجے میں ہوتی ہے۔بیرونی ہوا کی کیفیت یا علاقہ بدل کر، پانی اور غذا میں تبدیلی کے ذریعے، مناسب ورزش یا آرام سے، نفسیاتی علاج کرکے، نیند یا جاگنے کو اوقات میں تبدیلی کرکے اور پیشاب، پاخانہ، پسینہ وغیرہ فضلات بدن کے مناسب اخراج کے طریقے اختیار کرکے بیماری دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یونانی طبیب ان ہی چھ نکات (اسباب ستہ ضروریہ ) میں غور کرکے ان میں مناسب تصرف کرتا ہے جسے علاج بالتدبیر کہتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ رات کے وقت زیادہ جاگتے ہیں (خواہ رات کی ملازمت کی وجہ سے جاگنا ہو یا طلبہ کا امتحان کی تیاری میں مطالعہ کی غرض سے جاگنا ہو) ان میں ہضم کا نظام بگڑنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں طبیب درج بالا بیان کیے گئے دوسرے نکتے ’پانی اور کھانے کی چیزیں‘ اور پانچویں نکتے ’نیند‘ میں تدبیر کرتا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سناتا چلوں جس سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ ایران کے نادر شاہ درانی نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور دلی کو تخت و تاراج کرکے واپس لوٹ رہا تھا تب اسے بے خوابی(نیند نہ آنا) یا درد سر نے آگھیرا۔ واپسی میں جہاں اس نے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ لی تھیں وہیں دلی کے ماہرین علوم و فنون کو بھی لے لیا تھا۔ ظالم اس بیماری کے حال میں بھی سخت مزاج تھا۔حکم دیا کہ دلی کے جو طبیب ہمارے ساتھ لیے گئے ہیں انھیں حاضر کیا جائے۔ حکیم علوی خان حاضر کیے گئے۔ بادشاہ نے اپنا عجیب حکم سنایا کہ میرا علاج کرو لیکن شرط یہ ہے کہ نہ تو میں کوئی دوا کھاؤں گا نہ کوئی دوا لگاؤں گا اور نہ نبض وغیرہ دکھاؤں گا۔ اگر تم علاج میں کامیاب نہ ہوئے تو تمہاری خیر نہیں۔ شاہی حکم نامہ سن کر حکیم صاحب نے اپنی حذاقت سے بادشاہ کا معائنہ کرنے کے بعد علاج شروع کیااور دماغ کے مزاج کی گرمی و خشکی کے ازالہ کے لئے انھیں اسباب ستہ ضروریہ میں تبدیلی کی۔ خادموں سے کہا کہ گلاب سے بنے ہوئے پنکھے کو عطر خس سے معطر کرکے بادشاہ کو ہوا دی جائے۔ حکیم صاحب کی تجویز کے مطابق عمل شروع ہوا ۔ چند ساعتیں گزریں تھیں کہ بادشاہ کو جھپکی لگ گئی۔ سینکڑوں انسانوں کا خون کرکے کئی دنوں سے جاگنے والا جب سویا تو دیر تک سویا رہا اور جب اٹھا تو اسے بیماری کا مطلق اثر محسوس نہ ہوا۔ بادشاہ نے حکیم علوی خاں کی دانائی کی تعریف کی اور ان کی خواہش کے مطابق اعزاز و اکرام کے ساتھ دلی واپس کیا۔ اس قسم کے واقعات علاج بالتدبیر کے ذریعے بکثرت پیش آتے ہیں۔

طبیب اپنی ذہانت، تجربے اور طبی علوم کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی تدبیر متعلقہ مرض میں تیر بہدف ثابت ہوگی۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ حسن تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقلمندی نہیں۔حکماء کی نصیحت ہے اور جدید دور کے ماہرین طب بھی اس بات کو شد و مد سے کہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے دواؤں سے احتیاط ہی کرنی چاہیے اگرچہ وہ دوائیں جڑی بوٹیوں سے بنی ہوں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ہر مرض کا علاج بغیر دوا کے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مریضوں کو اس بات پر اصرار کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ عموماً یونانی طبیبوں کے پاس لوگ اس وقت پہنچتے ہیں جب بیماری اچھی خاصی بڑھ چکی ہوتی ہے اور ایلوپیتھی علاج سے فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ مزید پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ دل چاہتا ہے ایسے مریضوں سے کہا جائے کہ ؂

حکیم تیری نواؤں کا راز کیا جانے
‏ورائے عقل ہیں ایلوپیتھی کی تدبیریں

ظاہر ہے ایسی صورت میں بغیر دوا کے صرف تدبیر کا کارگر ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اگر بیماری کی پہلی علامت آتے ہی یونانی حکیموں سے مشورہ کرلیا جائے تو نہ صرف جلد شفاء کی امید ہے بلکہ محفوظ علاج ہونے کی وجہ دواؤ ں کے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔لیکن طب یونانی میں ان پیچیدہ امراض کے علاج کے لئے بھی اصول و ضوابط ہیں جن کی روشنی میں بہتر کوشش کی جاتی ہے اور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو بیماریاں سرجری یعنی آپریشن کی محتاج ہوتی ہیں ان میں بھی خواہ مخواہ لوگ دوائیں استعمال کرکے علاج کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ سارے فیصلے خود کرنے کی بجائے سند یافتہ ماہر اطباء اور حکماء پر چھوڑدینے چاہئیں۔

طب یونانی میں موجود تدابیر بے شمار ہیں جن میں سے چندتدبیریں زیادہ مستعمل ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ مالش، حمام، نطول، حجامہ، فصد، ارسال علق، ریاضت (ورزش)، تکمید، پاشویہ، آبزن، انکباب، شموم، قئے، تعریق وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔

Thursday, 15 February 2018

یقین جانیں،صحت مند رہنا بہت آسان ہے۔

*یقین جانیں،صحت مند رہنا بہت آسان ہے۔*

✒: ڈاکٹر محمد یاسر
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر

جہاں آجکل بیماریوں کی کثرت ہوئی ہے وہیں بیماریوں سے خوف بھی بہت بڑھ گیا ہے۔اگرچہ یہ فطری بات ہے کہ ہر مضر چیز سے انسان ڈرتا ہے لیکن کئی مرتبہ یہ ڈرنا مفید نہیں ہوتا ۔دوسری بات یہ کہ اس دور میں بیماریوں کا ڈر فطری ضرورت سے زیادہ نظر آتا ہے۔ تجارتی کمپنیاں اور دیگر بہت سے طبی اشتہارات اس خوف کے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بری عادتوں اور پرہیز نہ کرنے کی ہم ترغیب نہیں دے رہے ہیں بلکہ عوام میں بیماریوں سے بے جا خوف اورمریضوں میں لا علاج ہوجانے کے احساس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہر انسانی بدن میں صحت مند رہنے اور بیماریوں سے مدافعت (لڑنے) کی ایک قوت اللہ رب العزت نے رکھی ہے جسے طب یونانی میں ’ طبیعت یا قوت مدبرہ ء بدن‘ کہا جاتا ہے اور اسی کا کچھ حصہ جدید اصطلاح میں Immunity کہلاتا ہے۔ بقراط کا قول ہے کہ یہ طبیعت بیماریوں کا علاج کرتی ہے اور طبیب کا کام اسی طبیعت کی امداد کرناہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے امراض بغیر علاج کے بھی محض طبیعت کے عمل سے اچھے ہوجاتے ہیں۔اس لئے مذہب اسلام میں بیماروں کو بڑی امید دلانے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔سوچیں اور بار بار سوچیں کہ اس ایک جملہ میں جو مریضوں کی عیادت کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کتنی دل بستگی اور امید کا سامان ہے۔فرمایا:

*لا بأس طہور ان شاء للہ* (کوئی فکر کی بات نہیں ان شاء للہ صحت ہوجائے گی)

انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ تغیر پذیر ہے کبھی موسم بدلتا ہے تو کبھی انسانی نفسیات میں فرق آتا ہے اور کبھی غذا ؤں میں تبدیلی ہوتی ہے تو کبھی جسم کی حرکات و سکون کم و بیش ہوتی ہیں۔اس لئے انسان ہمیشہ صحت اور بیماری کے درمیان ایک Spectrum میں رہتا ہے اور طبیعت اس کی امداد میں سرگرم رہتی ہے۔ کوئی شخص ایک ہی حالت میں مستقل نہیں رہتا۔ بیماری لگتی بھی ہے اور دور بھی ہوجاتی ہے۔ اس لئے منفی ذہن بناکر بیماریوں سے خوف کرنے کی بجائے مثبت ذہن سے ہمیشہ صحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صحت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہم ایک دلچسپ بات آپ سے شیئر کریں کہ جو طلباء طب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ظاہر ہے انھیں تعلیم کے ساتھ عملی مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے۔ جس سال وہ بیماریوں کی علامات اور علاج پڑھتے ہیں انھیں اس بات کی عادت ہوجاتی ہے کہ وہ آنے والے ہر مریض میں اپنی پڑھی ہوئی علامات دیکھیں۔ چنانچہ کئی بار ایسے طلباء عام مریضوں میں پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی فکر کرنے لگتے ہیں۔ اساتذہ اس بات کو سمجھتے ہوئے بار بار یاد دہانی کراتے ہیں کہ پہلے عام بیماریوں کے بارے میں سوچیں پھر کم وقوع پذیر بیماریوں کے بارے میں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ طلباء بہت سی علامتوں کو اپنے اندر بھی محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ جو بیماری پڑھیں انھیں محسوس ہو کہ یہ میرے اندر تو نہیں۔ یہ دراصل کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ خوف ہوتا ہے ۔ اسی خوف کا نام کچھ اساتذہ نے Final Year Syndrome بھی رکھا ہے۔ یہ بات ہم نے اس لئے بھی بیان کردی کہ انٹر نیٹ پر گوگل بک سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد میں اب بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔ استاد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی نفسانی کیفیت کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔خود کو بیماریوں کا مجموعہ سمجھ کر بازاری طبیبوں سے آن لائن دوائیں خریدنے والے ان بے چاروں کے جہل مرکب پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے طبی محققین اب اس بات پر غور کررہے ہیں کہ عوام میں بیماریوں کی زیادہ تفصیل بیان کرنے سے بہترہے کہ صحت کے حصول کے طریقے بتائے جائیں اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ہمت پیدا کی جائے۔ بہت سے تجربات سے اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ جو لوگ قوی ہمت رکھتے ہیں وہ بیمار کم پڑتے ہیں ۔ اسی طرح جو مریض ،صحت حاصل کرلینے کی قوی امید رکھتے ہیں وہ جلد صحت یاب ہو بھی جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر سے بہتر علاج کرتے ہوئے مریضوں کو صحت کی امید دلائیں اگرچہ مرض لاعلاج ہو۔ زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ کہلوایا گیا

*لکل داء دواء فاذا أصیب دواء الداء برأ باذن اللہ* (ہر مرض کا علاج ہے اور جب دواء بیماری کے موافق مل جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفاء ہوجاتی ہے۔ )

اس میں جہاں اطباء کے لئے بنی نوع انسان کو لاحق ہونے والی ہر بیماری کے علاج کی جستجو اور تحقیق کی دعوت فکر ہے وہیں مریضوں کو اطمینان بھی دلایا گیا ہے کہ مایوسی کو قریب نہ آنے دیں اور علاج میں ہمت سے جٹے رہیں۔کہا جاتا ہے کہ طبیب ایسا ہو کہ آدھی بیماری صرف اس سے ملنے سے ٹھیک ہوجائے۔ مطلب یہ کہ وہ ڈاکٹر اس قدر امید افزاء بات چیت کرے کہ مریض کو جلد ہی اپنی مکمل صحت کی امید ہوجائے۔ اس سلسلے میں مریضوں کو بھی اطباء کا تعاون کرنا چاہیے۔دیکھا یہ جاتا ہے کہ مثلاً ایک مریض کو تین شکایات تھیں اور کچھ علاج کے بعد دو شکایات ختم ہوگئیں ایک رہ گئی تو مریض آکراس ایک شکایت کے بارے میں یوں گویا ہوتا ہے ’’ڈاکٹر صاحب تکلیف جیسی تھی ویسی ہی ہے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ استفسار پر معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک تکلیف رہ گئی ہے۔ اس طرح کی منفی ذہنیت سے مریضوں کو صحت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔اس کے بالمقابل کچھ مریض صحت میں آنے والے سدھار کا تذکرہ کرتے ہیں اوربقیہ تکالیف پوچھنے پر بتاتے ہیں ان کا مثبت انداز انھیں خود بھی فائدہ دیتا ہے اور طبیب بھی ایسے مریضوں کا شوق سے علاج کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مرض کاکامیاب علاج یک طرفہ نہیں ہوسکتا بلکہ طبیب و مریض دونوں کی پر عزم مشترکہ متحدہ مثبت محنت سے ہوتا ہے۔

اس مصروف زندگی میں ہمیں صحت کے حصول کو بھی اپنے کاموں میں ایک اہم کام گننا چاہیے اور اس کے لئے شوق و توجہ سے وقت دینا چاہیے۔اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کو بھی بہتر بنانا چاہیے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ اچھے خیالات و جذبات والے لوگ اچھے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ اور اچھے اخلاق والے زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ذہنی و نفسیاتی الجھنوں سے دور رہتے ہیں۔خود کو نفسیاتی طور سے مضبوط بناناچاہیے۔شکر و قناعت کی صفات انسان کی آدھی بیماری دور کردیتی ہیں۔اس طرح ہم بہت سے امراض سے خود ہی بچ سکتے ہیں۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ گھروں میں عورتوں کے بیمار ہونے کا تناسب زیادہ ہے۔اس کی وجہ صنف نازک کی صحت کی طرف سے بے توجہی کے علاوہ ان کی کم ہمتی بھی ہے ۔ ان کی نفسیاتی کمزوری انھیں زیادہ بیمار کردیتی ہے۔ قدرت نے ہمیں ایک نعمت توافق (Adoptation) کی عطا فرمائی ہے ۔ جب کوئی مصیبت انسان پر پڑتی ہے تو کچھ عرصہ اس سے پریشان ہوکر گویا اس کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ مثلاً کسی کو فالج ہوجائے تو اچانک سے اس تبدیلی پر اسے سخت غم ہوتا ہے لیکن پھر وہ اسی طرح زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ اس توافق کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس سے بڑے بڑے مسائل چھوٹے معلوم ہونے لگتے ہیں۔یہ بات بھی یاد رہے کہ مکمل صحت حاصل کرنے کے لئے پریشان ہونے کی بجائے موجودہ حالت صحت سے کچھ بہتری حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ آسان ہو۔اس طرح درجہ بدرجہ بہتری کا حصول آسانی سے ممکن ہے۔جدید دور میں صحت کے حصول کے اس مثبت طریقے کو Salutogenesis کا نام دیا گیا ہے۔

Friday, 9 February 2018

طب یونانی کی اہمیت پر حکیم اجمل خاں صاحب کا اہم خطاب

*طب یونانی کی اہمیت پر حکیم اجمل خاں صاحب کا اہم خطاب*

تحریر: ڈاکٹر محمد یاسر

کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر

مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب ہمارے ملک کے ایک عبقری شخص تھے۔طب و حکمت میں ان کا نام کسی پر مخفی نہیں۔ علمیت اور ذہانت ان کی گرانقدر تصانیف سے جھلکتی ہے۔ملی قیادت اور ملکی سیاست میں گاندھی جی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر جیسی مقتدر شخصیات کے ہم پلہ تھے۔طب یونانی کی بقاء و ترقی کے لئے حکیم صاحب کی کوششیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ملک میں آج طب یونانی کے جتنے سرکاری ادارے تحقیق و تعلیم کے چل رہے ہیں ان ہی کی محنتوں کے ثمرات ہیں۔ان کی طبابت اور حذاقت سے خلق کثیر نے نفع اٹھایا۔ ماضی قریب میں بحیثیت حکیم ایسی شہرت و مقبولیت کسی کو حاصل نہ ہوسکی جو حکیم صاحب نے پائی تھی۔ انگریزی دور حکومت میں جب ایلوپیتھی کے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد دیسی طبوں بالخصوص یونانی طب کو حکومت نے ختم کرناچاہا اور عوام میں بھی ایلوپیتھی کے فوری اثرات کو دیکھ کر یونانی طب سے کچھ غفلت ہونے لگی اس وقت حکیم صاحب نے اپنے کئی خطبات میں اس طرف توجہ دلائی کہ ہماری صحت کی حفاظت میں طب یونانی کی کیا اہمیت ہے اور اس کو باقی رکھنا کیوں ضروری ہے۔خطبات اجمل نامی کتاب سے ایک اہم خطاب کا اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے جو آج بھی اپنی افادیت کا احساس دلاتا ہے۔ دیسی طبوں اور طب یونانی کے بارے میں دلائل سے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ یہ طریقہء علاج سائنس کے عین مطابق (یعنی سائنٹفک)ہے حکیم صاحب نے درج ذیل دس اہم نکات بیان کئے جو تھوڑی وضاحت کے ساتھ(جو قوسین میں درج ہیں) پیش خدمت ہیں۔

حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں آپ کے سامنے وہ چند باتیں بیان کرنی چاہتاہوں جو ہم ہندوستانیوں کو اس بات کے لئے مجبور کرتی ہیں کہ ہم ان دیسی طبوں(بشمول یونانی طب)کو پوری کوشش کے ساتھ قائم رکھتے ہوئے ان کی ترقی میں برابر اپنی کوششوں کو مصروف رکھیں۔

(۱) یہ طبیں ہماری ہیں اورجس طرح انسان اپنی چیزوں سے فطری اور پیدائشی محبت رکھتا ہے اسی طرح ہم ان سے محبت رکھتے ہیں اور جہاں تک ہمارے امکان میں ہوگا ہم انھیں بربادی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم سچے طور پر اپنے وطن سے محبت رکھتے ہیں اور ہمیں اپنے دیس کی عادات، رسم و رواج، صنعت و حرفت اور وہ علو م جن پر ہمارے لاکھوں بزرگوں نے دماغ سوزیاں کیں بھلے معلوم ہوتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی طبوں کے ساتھ بھی محبت کریں اور ان کی ترقی میں جو اندرونی اور بیرونی رکاوٹیں ہوں انھیں دور کریں۔

(۲) مسلمان اپنی طب کو اگرچہ مذہبی نہیں سمجھتے لیکن وہ اسے اپنی قومی یادگار سمجھتے ہیں اور جس طرح اپنی قومی روایات کے ساتھ گہری سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اسی طرح وہ اس طب اسلامی کے ساتھ بھی جس کا ماخذ طب یونانی ہے خصوصیت کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں۔

(۳) یہ دیسی طبیں قدیم ہے اور جہاں تک دواؤ ں کے متعلق تجربہ کا تعلق ہے ان کی قدامت (پرانا ہونا)جس طرح علاج کرنے والوں کے لئے باعث اطمینان ہوسکتی ہے اسی طرح اس ملک کی آبادی کے کامل بھروسہ کا سبب بھی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی تقریباً اسی (۸۰) نوے (۹۰) فیصدی آبادی اسی دیسی طریقہء علاج کی گرویدہ ہے۔اگر اس طب میں خوبیاں نہ ہوتیں تو وہ ہرگز اتنی ہردلعزیز نہ ہوتی۔

(۴) ان دیسی طریقہء علاج میں بہت سی کہنہ (پرانی) بیماریوں کے زیادہ مفید علاج پائے جاتے ہیں جس کا اعتراف انصاف پسند (ایلوپیتھی)ڈاکٹر بارہا کرچکے ہیں۔اورجو روز مرہ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ ان کے بیان میں تفصیل سے کام لیا جائے۔

(۵)دیسی طبوں کی مفید دواؤں کا ذخیرہ مغربی طبوں سے بہت زیادہ ہے۔اس لئے اس ذخیرہ کو جو ہمارے بزرگوں کی صدہا سال کی محنتوں کا نتیجہ ہے محفوظ رکھنا ہمارے فرائض میں سے ہے۔

(۶)رات دن بیشمار تجربے اس قسم کے ہوتے رہتے ہیں کہ ایک بیمار ڈاکٹری اور یونانی سے تھک کر کسی وید کے پاس جاتاہے اور دوسرا ڈاکٹری اور ویدک سے مایوس ہوکر کسی یونانی طبیب کے پاس آتا ہے اور تیسرا ان دونوں سے فائدہ نہ حاصل کرکے ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور ان بیماروں کو وید، طبیب اور ڈاکٹر سے فائدہ حاصل ہوتا ہے تو ملک کے فائدہ کے خیال سے ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ ہم دیسی طبوں کو جو اس حالت میں بھی اپنے امتیاز کو قائم رکھے ہوئے ہیں برقرار رکھیں اور ان کی ترقی کے لئے کوششیں کریں ۔

(۷) دیسی علاج بہت سستا ہے اور ملک کی مالی حالت کے لحاظ سے اس کی آبادی کے لئے زیادہ موزوں اور مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔(یہ بات حکیم صاحب نے اس زمانے کے اعتبار سے کہی تھی ۔ یونانی طب میں آج جو مہنگائی نظر آتی ہے وہ کچھ تو جڑی بوٹیوں کی تجارت کرنے والوں کی من مانی قیمت طئے کرنے کا نتیجہ ہے اور کچھ تو بعض مطب کرنے والوں کے ہر مرض کا مکمل علاج کرنے کے بے جادعوے اور بے حاشہ قیمت وصول کرنے کا۔و رنہ حکیم صاحب کی یہ بات حقیقت میں آج کے دور میں بھی درست ہے ۔)

(۸) جیسا کہ مشہور ہے اور بہت صحیح بھی ہے کہ ملک کی بیماریوں کے لئے اس کی آب و ہوا وہ تمام دوائیں مہیا کرتی ہے جو ان کے لئے زیادہ مناسب ہوتی ہیں ۔ اس لیے ہم ہندوستانیوں کے لئے یہاں کا علاج زیادہ موزوں اور مناسب ہوگا۔(بابائے طب بقراط کا قول منقول ہے کہ اپنے بیماروں کا علاج اپنے علاقے میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں سے کرو۔)

(۹) غیر ملکی طب کے رواج کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندوستان جیسے مفلس ملک سے کروڑوں روپیہ ہر سال باہر جایا کرے گا ۔(یاد رہے کہ ہمارا ملک آج بھی ایلو پیتھی دواؤں کے لئے غیرملکی کمپنیوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے اور ملکی کمپنیاں بھی خام مال کے لئے دوسرے ممالک پر منحصر ہیں) اس لیے ہمارا فرض یہ ہونا چاہیے کہ اپنے روپیہ کو جو طبی ضرورتوں پر خرچ کیا جائے اس طرح خرچ کریں کہ ہماری دولت ہمارے ہی ملک میں رہے۔ ( یہ کہا جائے تو بھی درست ہوگا کہ اگر مسلمانوں سے وابستہ طب یونانی سے جن امراض کا علاج ہو سکتا ہے اس کے لئے اسی طب پر خرچ کریں تاکہ ملت کا پیسہ اسی ملت کے پاس رہے۔)

(۱۰) غیر ملک کی دواؤن پر بھروسہ کرنے کے بعض تلخ نتائج ہوتے ہیں جیسا کہ اس جنگ عظیم کے دوران میں دیکھا گیا کہ بعض دواؤں کے نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں کو علاج کرنے میں اور بیماروں کو اپنی بیماریوں کی دوائیں لینے میں کتنی مشکلات پیش آئیں۔ اگر انگلستان کا بیڑا کمزور ہوتا اور ستہ کی حفاظت نہ کرسکتا اور ہندوستان صرف ڈاکٹری علاج کرتا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ بیمارون کی اور معالجوں کی کیا حالت ہوتی۔(یہ بات حکیم صاحب نے اس زمانے کے اعتبار سے کہی تھی لیکن کچھ پتہ نہیں کہ ناسازگار حالات کب پیش آجائیں اور وہی احتیاج کب پیدا ہوجائے۔)

حضرات! یہ وجوہ ہیں جو ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنی دیسی طبوں کی حفاظت اور ان کی ترقی کے وسائل میں منہمک ہوجائیں اور یہ وجوہ ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ہر ایک ہندوستانی کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ ان دیسی طبوں کی ترقی اور بقاء کے مسئلہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔

حکیم صاحب کے اس پیغام میں موجودہ دور کے لئے وہی تازگی اور زندگی ہے جو اس زمانے میں تھی ۔ گیارہ فروری سن ۱۸۶۸ ؁ء حکیم صاحب کا یوم پیدائش تھا۔ اس مناسبت سے حکیم صاحب کی پیدائش کو ایک سو پچاس سال مکمل ہونے پر ان کی خدمات اور پیغامات کوعام کرنے کی غرض سے ایک عظیم الشان سہ روزہ یونانی کانکلیو صابو صدیق گراؤنڈ پر ۱۰، ۱۱، ۱۲ فروری(بروز سنیچر، اتوار پیر ) ہونا طئے پایا ہے جس میں ملکی اور عالمی سطح کی اہم شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔ اپنی نوعیت کا منفرد یہ پروگرام یونانی اطباء ، عوام الناس، یونانی کمپنیوں اور تعلیم یافتہ طبقات کا غالباً پہلا مشترکہ پروگرام ہوگا جس میں ہمارے اسلاف کے اس عظیم سرمایہ یونانی طب سے متعلق ہر جانکاری حاصل کی جاسکتی ہے اور تقریباً ہر چیز دیکھی جاسکتی ہے۔