Friday, 11 May 2018

رمضان کے روزے اور طب یونانی۔


ڈاکٹر محمد یاسر
ایم ڈی (معالجات)
پی ایچ ڈی اسکالر (جامعہ ملیہ اسلامیہ)
کنسلٹنگ فزیشین الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر۔

صیام رمضان کے طبی فوائد پر غور کیا جائے تو کئی اہم نکات ذہن میں آتے ہیں۔ عبادت پر ملنے والے لازوال ثواب کے ساتھ ساتھ یہ ماہ مبارک ہمیں صحت کا ایک گرانقدر عطیہ دے جاتا ہے۔
طبی محققین کہتے ہیں کہ صحت کی حفاظت و امراض کے علاج کے لئے کسی نئی تدبیر پر عمل کرنے اور اسے زندگی میں داخل کرنے سے زیادہ مؤثر یہ ہے کہ جن اعمال سے آدمی گزرتا ہے اسی میں مناسب تبدیلی کے ذریعے حصول صحت کی کوشش کی جائے۔ رمضان کے روزے مسلمانوں پر فرض ہیں۔ ان کو صحیح گزارنے کی فکر کرلی جائے اور چند طبی ہدایات پر عمل کرلیا جائے تو کئی منافع حاصل ہوسکتے ہیں۔ لیکن روزے میں ان طبی فوائد کی نیت کی بجائے رضائے الہی کی نیت کرنی چاہئے۔
شوگر، پریشر، موٹاپا، جوڑوں کے درد، پیٹ کے امراض اور کینسر جیسی لائف اسٹائل بیماریاں ایسی عادات کی وجہ سے ہوتی ہیں جنھیں بدلنا عموماً مشکل ہوتا ہے، خصوصاً کھانے پینے کی عادتیں اور مستقل ذہنی و نفسیاتی تناؤ (جو مسلسل رہنے سےایک طرح کی عادت میں داخل ہوجاتا ہے)۔ ان بیماریوں سے حفاظت کے لئے لائف اسٹائل اور عادتوں میں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مدت روزہ رکھنے کی مشق سے ہمیں ان عادتوں کو کنٹرول کرنا آسان ہوجاتا ہے اور ایک will power ہمارے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔
معاشرے میں افراد کی ایک بڑی تعداد کا ایک ساتھ روزہ رکھنا نفسیاتی طور سے انسان کو اس کے لئے آمادہ کردیتا ہے اور یہ عمل اس پر آسان بھی ہوجاتا ہے۔
امراض کے علاج میں ایک طریقہ علاج بالغذا کا بھی ہے۔ غذاؤں سے علاج کے تین بنیادی طریقے ہیں۔ ترک غذا، تقلیل غذا، کثرت غذا۔
کثرت غذا کی عموماً ضرورت كم ہی پیش آتی ہے۔ بقیہ دو طریقوں پر غور کیاجائے تو اس مہینے میں صبح سے شام تک ترک غذا اور مجموعی طور پر تقلیل غذا کی اچھی مشق ہوجاتی ہے۔
طب یونانی کے محققین کا اتفاق ہے کہ ایک تندرست آدمی کو دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اور زیادہ سے زیادہ  دو مرتبہ کھانا کھانا چاہیے۔ یہ صحت کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہے اور پر خوری کی بیماریوں سے بچانے والا ہے۔
اگر سحر و افطار میں بقدر بھوک ہی کھایا جائے۔ اور غیر رمضان کی مقدار خوراک زبردستی لینے کی کوشش نہ کی جائے تب ہی روزہ کے طبی فوائد کا حصول ممکن ہے۔
صحت مند لوگوں کے لئے سحری میں بیدار ہوتے ہی بہت زیادہ پانی پینا ہاضمہ کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے سے بہتر یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی قسم کا کھانا رکھا جائے۔
اطباء نے کھانے پینے کے سلسلے میں کچھ مفید ہدایات دی ہیں۔
1۔ جن اسباب سے ہضم میں فساد آجاتا ہے وہ یہ ہیں، ایک وقت میں مختلف چیزیں کھائی جائیں، بھاری غذا ہلکی غذا سے پہلے لی جائے،طرح طرح کے کھانے ایک ساتھ کھائے جائیں، کھانے کی مدت اتنی بڑھادی جائے کہ شروع کرنے اور ختم کرنے میں خاصا وقت لگ جائے۔
2۔ کھانا موسم گرما میں ٹھنڈا اور سردی میں گرم ہونا چاہیے۔لیکن اس امر کی رعایت بہرحال ضروری ہے کہ کھانا سردی میں اتنا گرم نہ ہوکہ چولہے سے اترتے ہی کھالیا جائے اور نہ گرمی میں انتہائی ٹھنڈا کھانا کھایا جائے۔ کھانے کے مناسب ترین ٹھنڈے اوقات(صبح اور شام ) ہیں۔(ماہ رمضان میں سحری و افطاری کے اوقات مناسب ہیں۔)
3۔ تازہ پھل غذا کھانے سے پہلے کھالینا چاہیے اور اگر پھل ترش اور دیر ہضم ہوں جیسے انار وغیرہ تو ان کو کھانے کے بعد لینا مناسب ہے۔
4۔ اگر ایک روز ثقیل غذا لی گئی ہو تو اگلے روز ہلکی غذا لینی چاہیے۔
5۔ کھانے سے شکم کو کبھی اتنا پر نہیں کرنا چاہئے کہ معدہ میں تناؤ عارض ہوجائے یا اس میں بھاری پن محسوس ہونے لگے اور سانس میں تنگی ہونے لگے۔
6۔ نہار منہ پانی نہ پیا جائے۔
7۔ دسترخوان پر یعنی کھانے کے دوران پانی بقدر ضرورت ہی پینا چاہئے کیونکہ اس وقت تھوڑا پانی ہی کافی ہوتا ہے۔
8۔ اگر کھانے کے فوراً بعد پئیں تو اسی قدر جس سے کہ پیاس کی تسکین ہوجائے۔
9۔ سیر ہوکر پانی اسی وقت پئیں جب کہ غذا معدہ سے نیچے اتر چکی ہو۔
10۔ کمزور اعصاب کے لوگوں کو اور جن کا ہاضمہ ضعیف ہو ان کو برف سے ٹھنڈا کیا ہوا پانی نہیں پینا چاہیے۔
سحور و افطاری میں ان ہدایات کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ صحت میں بگاڑ پیدا نہ ہونے پائے۔
ذہنی و نفسیاتی صحت کے اعتبار سے یہ مفید ہے کہ جہاں بدن کو غذا کی کمی برداشت کرنی پڑ رہی ہو وہیں ذہن و دماغ کو غیر ضروری اور مضر صحت خیالات سے بھی بچایا جائے۔ اس لحاظ سے یہ ماہ مبارک مفید ترین ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند کے کم ہونےاور بڑھنے سے بدن میں موجود رطوبات پر اسی طرح اثر پڑتا ہے جس طرح سمندر کے پانی میں چاند سے مدو جزر کی شکل میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ روزہ میں قمری یعنی چاند کی تاریخوں کا لحاظ کرتے ہوئےپورے ایک مہینے روزہ رکھنا بدن کے پورے biological rhythm کو درست کرتا ہے۔ اس سے بدن کے تمام ہی افعال پر اچھا اثر پڑتا ہے۔

No comments:

Post a Comment