✒ ڈاکٹر محمد یاسر
ایم ڈی (معالجات)
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر، ممبئی و دہلی۔
اگر پوچھا جائے کہ سب سے زیادہ پیش آنے والی تکلیف دہ کیفیت انسانوں کے لئے کیا ہے؟ تو سبھی کاایک جواب ہوگا ’درد‘۔ درد کی تاریخ اتنی ہی یہ پرانی ہے جتنی کہ انسان کی۔ علاج ومعالجہ ہو یا شعر و شاعری، دونوں جگہ درد کی وجوہات، کیفیات اور اس کے سدباب پر گفتگو ہوتی ہے۔ درد کبھی جسمانی یا بدنی ہوتا ہے اور کبھی ذہنی یا نفسیاتی ۔شعراء کے کلام پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ درد کا جو احساس انھیں ہوا ہے شاید کسی کو نہیں ہوا۔انھوں نے درد کے نفسیاتی اثرات کو خوب اجاگر کیا ہے۔قلب و جگر کو پہونچنے والی اذیتوں سے پیدا ہونے والی درد کی فطری کیفیات واحساسات کو الفاظ کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔عام لوگوں کے لئے اس سے یہ سمجھنا آسان ہوا ہے کہ درد کی شدت اور اس کی کیفیت کا اظہار کس طرح کیا جائے۔ فیض احمد فیض کہتے ہیں
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سےالجھنا چاہا
ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا
ساتھ ہی اپنی مبالغہ آمیزطبیعت اور شوخ بیانی سے درد کوکبھی لا علاج و بے دوا مانا ہے ، کبھی اس میں لذت بھی محسوس کی ہے،کبھی اس سے نجات کی تمنا بھی کی ہے۔اس سلسلے میں غالب سر فہرست ہیں کہتے ہیں
درد منت کش دو ا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہو ا برا نہ ہوا
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ درد اگر دائمی ہوجائے تو اس کے ساتھ زندگی کا سمجھوتہ ہوجاتا ہے ۔جگر مرادآبادی کہتے ہیں
درد و غم دل کی طبیعت بن گئی
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
شاعری کی یہ ساری باتیں قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کر دی گئیں ۔ طبی نقطہء نظر سے درد خود کوئی مرض نہیں بلکہ امراض کی ایک اہم اور کثیر الوقوع علامت ہے ۔جسمانی امراض کا احساس زیادہ تر درد سے ہی ہوتا ہے۔درد معمولات زندگی میں نمایاں خلل ڈالتا ہے۔ مریض اپنی اضطراری کیفیت میں طبیب سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ تشخیصی الجھنوں میں پھنسنے سے پہلے اس کے درد کو دور کرے۔اس لئے فن علاج میں درد پر اولین توجہ دی جاتی ہے۔درد کی تسکین کے ساتھ اصل مرض کے اعتبار سے مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک مختلف حالات میں بکثرت انسان کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔درد کے علاج پر ہونے والا خرچ مجموعی طور پر کافی زیادہ ہوتا ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق طبیبوں کے پاس بغرض علاج آنے کی وجوہات میں۸۰؍ فیصد سے زیادہ حصہ درد کا ہوتا ہے۔
مشہور طبیب ابن سینا نے اپنی معروف کتاب القانون فی الطب میں لکھا ہے کہ ’ درد ایک منفی احساس کا نام ہے جو کہ غیر طبعی طور سے کسی ذی حیات کو عارض ہوتا ہے‘۔ اس کے اسباب پر اصولی بحث کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ ’ درد اس وقت ہوتا ہے جب بدن کے کسی حصے کا مزاج بگڑ جائے‘ (مزاج کا بگڑنا بیرونی ماحول، اشیاء خورد و نوش، حرکت و سکون، فضلات بدن کے اخراج میں مختلف خرابیوں کی وجہ سے ہوسکتا ہے )۔ہم نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ بعض مرتبہ درد کاعلاج برف کی ٹھنڈک سے کیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ بھاپ یاآگ کی گرمی سے۔پہلی صورت میں مزاج کی بڑھی ہوئی گرمی زائل کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں زائد ٹھنڈک کم کی جاتی ہے۔نفسیاتی طور پر بھی دیکھیں مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آنے پر انسان پریشان ہوتا ہے اور اذیت محسوس کرتا ہے۔ ’ درد کا دوسر اہم سبب کسی حصے کی نارمل جڑی ہوئی حالت (اتصال) کے درمیان تفریق پیدا ہوجانا ہے‘۔چوٹ لگنے سے ہونے والا درد اس کی عام مثال ہے۔تفرق اتصال صرف جسمانی نہیں ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی ، ذہنی اور قلبی بھی ہو سکتا ہے۔کہا گیا ہے کہ تلواروں سے ہونے والا زخم تو مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان سے ہونے دالا زخم مندمل نہیں ہوتا۔گویا زبان کی چوٹ زیادہ دردناک ہوتی ہے۔ کسی چیز یا شخص سے تعلق خاطر ہو اور وہ جدا ہوجائے تو اس فراق سے بھی درد محسوس ہوتا ہے۔ انسانوں میں پائے جانے والے طبعی اختلاف کی وجہ سے ایک ہی قسم اور شدت کے مرض کے باوجود درد کا احساس کسی کو کم کسی کو زیادہ ہوتاہے۔جسمانی اور نفسیاتی لحاظ سے مضبوط افراد،بدنی ورزش کرنے والے اور درد جھیلنے کے عادی لوگوں کوذکی الحس افراد کی بہ نسبت درد ہلکا معلوم ہوتاہے۔ یہی مشکل ہے کہ کسی اور کو ہونے والے درد کی شدت کا صحیح اندازہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ایسی صورتوں میں مریض کو بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تکلیف کے ساتھ بے توجہی برتی جارہی ہے۔یہ احساس ذہنی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔اس طرح جسمانی اور ذہنی دونوں ہی قسم کا درد جمع ہوجاتا ہے۔جب مریض جسمانی تکلیف کے ساتھ ذہنی یا نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتا ہے تو مجموعی طور سے اسے درد کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب جو لوگ کسی پسندیدہ کاموں میں مصروف ہوتے ہیں یا ان کا ذہن کسی اہم کام میں مشغول ہوتا ہے یا وہ بتکلف اپنے ذہن کو درد کی طرف سے پھیر لینا جانتے ہیں انھیں باوجود مرض کے درد کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات بالکل نہیں ہوتا۔
ایک اچھے طبیب کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ مریض کے درد کی تسکین کے ساتھ ساتھ اصل مرض کی تشخیص کرے۔آج کی تیز رفتار زندگی میں یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ مریضوں کے پاس اصل بیماری کی تشخیص کے لئے وقت نہیں ہوتا۔وہ چاہتے ہیں کہ درد کسی طرح سے کم ہوجائے اور معاشی کام کاج میں لگ جائیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ خود معالجین بھی بہت سے ایسے ہیں کہ مریضوں کی اس مضر نفسیات کے تابع ہوجاتے ہیں۔ میڈیکل اسٹور سے براہ راست درد کی دوائیں خرید کر استعمال کرنااب کوئی حیرت کی بات نہیں رہی۔ Pain Killer اور Steroid دواؤں کی کھپت خطرناک حد تک بڑھی ہوئی ہے۔یہ دوائیں بدن کے ہر حصے پر اپنا برا اثر ڈالتی ہیں۔ قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔ ان دواؤں کی ایسی عادت ہوجاتی ہے کہ پھر دوسری دوائیں اثر انداز نہیں ہوتیں۔غور کیا جائے تو مریض ازخود یا بغیر صحیح طبی رائے کے جن مقاصد کے لئے یہ دوائیں لیتا ہے وہ بھی پورے نہیں ہوپاتے۔فوری آرام کے چکر میں دھیرے دھیرے دواؤں کے سائڈایفیکٹ سے بالآخر طویل مدت بستر پر گزارنا پڑتا ہے۔ایسی سستی دوائیں کئی بڑے طبی اخراجات کا بوجھ بھی سر پر لاد دیتی ہیں۔
طب یونانی میں ایسی کئی تدابیر ہیں جو بغرض علاج مرض اختیار کی جاتی ہیں اور ان سے مرض کے سدباب کے ساتھ ساتھ درد میں بھی فائدہ ہوتا ہے شرط یہ ہے کے اچھے طبیب کی رائے سے کی جائیں۔ ورم کو تحلیل کرنے والی کئی دیسی ادویات و تدابیر ہیں جو نہ صرف مفید ہیں بلکہ محفوظ بھی ہیں۔ادویات کے علاوہ کہیں تقویت کی تدبیر مفید ہوتی ہیں جیسے کچھ اقسام کے سردرد اور بدن دردمیں ۔ کہیں ہاضمہ کہ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً چنداقسام کے پیٹ درد سینے کے درد اور سر درد وغیرہ میں۔ کہیں بدن سے غیر ضروری مادوں کو نکالنے کی تدبیر کرنی ہوتی ہیں مثلاً بہت سارے ہڈیوں اور جوڑوں کے درد، کمر درد، پیٹ درد،وغیرہ میں۔فصد، حجامہ، مالش،اسہال ، قئے ، ادرار جیسی تدابیر اس مقصد سے مستعمل ہیں اور فوری آرام بھی ان سے ہوتا ہے۔کہیں پر صرف سردی یا گرمی پہونچاناکافی ہوتا ہے۔ بہت سے دردوں میں صرف ورزش کی ضرور ت ہوتی ہے۔نفسیاتی علاج ایک اہم ترین اور بھولا ہوا یونانی طریقہء علاج ہے ۔اسے بھی رائج کرنے کی ضرورت ہے۔
http://epaper.humaapdaily.com/news/7/2018-08-17
No comments:
Post a Comment