Sunday, 9 September 2018

Talbeena ready made

Benefits of Masnoon Diet of Prophetic Medicine 'Talbeena':

1. Improves strength and blood۔
2. Detoxify and cleanses digestive system۔
3. Relieves anxiety and depression۔
4. Equally beneficial for all age groups۔
5. Best Diet and Remedy for several ailments۔

طب نبوی کی مسنون غذا 'تلبینہ'  کےفوائد:

۱۔ طاقت اور خون بڑھاتا ہے۔
۲۔ پیٹ کو غلاظت سے صاف کرتا ہے۔
۳۔ پریشانی اور غم دور کرتا ہے۔
۴۔ تمام عمر کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہے۔
۵۔ عمدہ غذا بھی ہے اور بیماروں کے لئے شفا بھی۔

Call or whatsapp for your Order +919699277250
AlHakeem Unani Medicare center Asalpha Ghatkopar West
www.unanihakeem.in

Sunday, 2 September 2018

Benefits of Talbeena, A Prophetic Diet

*Benefits of Masnoon Diet of Prophetic Medicine 'Talbeena':*

1. Improves strength and blood۔
2. Detoxify and cleanses digestive system۔
3. Relieves anxiety and depression۔
4. Equally beneficial for all age groups۔
5. Best Diet and Remedy for several ailments۔

*طب نبوی کی مسنون غذا 'تلبینہ'  کےفوائد*:

۱۔ طاقت اور خون بڑھاتا ہے۔
۲۔ پیٹ کو غلاظت سے صاف کرتا ہے۔
۳۔ پریشانی اور غم دور کرتا ہے۔
۴۔ تمام عمر کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہے۔
۵۔ عمدہ غذا بھی ہے اور بیماروں کے لئے شفا بھی۔

Friday, 17 August 2018

میرے درد کی دوا کرے کوئی!

✒ ڈاکٹر محمد یاسر
ایم ڈی (معالجات)
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر، ممبئی و دہلی۔

اگر پوچھا جائے کہ سب سے زیادہ پیش آنے والی تکلیف دہ کیفیت انسانوں کے لئے کیا ہے؟ تو سبھی کاایک جواب ہوگا ’درد‘۔ درد کی تاریخ اتنی ہی یہ پرانی ہے جتنی کہ انسان کی۔ علاج ومعالجہ ہو یا شعر و شاعری، دونوں جگہ درد کی وجوہات، کیفیات اور اس کے سدباب پر گفتگو ہوتی ہے۔ درد کبھی جسمانی یا بدنی ہوتا ہے اور کبھی ذہنی یا نفسیاتی ۔شعراء کے کلام پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ درد کا جو احساس انھیں ہوا ہے شاید کسی کو نہیں ہوا۔انھوں نے درد کے نفسیاتی اثرات کو خوب اجاگر کیا ہے۔قلب و جگر کو پہونچنے والی اذیتوں سے پیدا ہونے والی درد کی فطری کیفیات واحساسات کو الفاظ کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔عام لوگوں کے لئے اس سے یہ سمجھنا آسان ہوا ہے کہ درد کی شدت اور اس کی کیفیت کا اظہار کس طرح کیا جائے۔ فیض احمد فیض کہتے ہیں ؂
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سےالجھنا چاہا
ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا
ساتھ ہی اپنی مبالغہ آمیزطبیعت اور شوخ بیانی سے درد کوکبھی لا علاج و بے دوا مانا ہے ، کبھی اس میں لذت بھی محسوس کی ہے،کبھی اس سے نجات کی تمنا بھی کی ہے۔اس سلسلے میں غالب سر فہرست ہیں کہتے ہیں ؂
درد منت کش دو ا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہو ا برا نہ ہوا
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ درد اگر دائمی ہوجائے تو اس کے ساتھ زندگی کا سمجھوتہ ہوجاتا ہے ۔جگر مرادآبادی کہتے ہیں ؂
درد و غم دل کی طبیعت بن گئی
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
شاعری کی یہ ساری باتیں قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کر دی گئیں ۔ طبی نقطہء نظر سے درد خود کوئی مرض نہیں بلکہ امراض کی ایک اہم اور کثیر الوقوع علامت ہے ۔جسمانی امراض کا احساس زیادہ تر درد سے ہی ہوتا ہے۔درد معمولات زندگی میں نمایاں خلل ڈالتا ہے۔ مریض اپنی اضطراری کیفیت میں طبیب سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ تشخیصی الجھنوں میں پھنسنے سے پہلے اس کے درد کو دور کرے۔اس لئے فن علاج میں درد پر اولین توجہ دی جاتی ہے۔درد کی تسکین کے ساتھ اصل مرض کے اعتبار سے مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک مختلف حالات میں بکثرت انسان کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔درد کے علاج پر ہونے والا خرچ مجموعی طور پر کافی زیادہ ہوتا ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق طبیبوں کے پاس بغرض علاج آنے کی وجوہات میں۸۰؍ فیصد سے زیادہ حصہ درد کا ہوتا ہے۔
مشہور طبیب ابن سینا نے اپنی معروف کتاب القانون فی الطب میں لکھا ہے کہ ’ درد ایک منفی احساس کا نام ہے جو کہ غیر طبعی طور سے کسی ذی حیات کو عارض ہوتا ہے‘۔ اس کے اسباب پر اصولی بحث کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ ’ درد اس وقت ہوتا ہے جب بدن کے کسی حصے کا مزاج بگڑ جائے‘ (مزاج کا بگڑنا بیرونی ماحول، اشیاء خورد و نوش، حرکت و سکون، فضلات بدن کے اخراج میں مختلف خرابیوں کی وجہ سے ہوسکتا ہے )۔ہم نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ بعض مرتبہ درد کاعلاج برف کی ٹھنڈک سے کیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ بھاپ یاآگ کی گرمی سے۔پہلی صورت میں مزاج کی بڑھی ہوئی گرمی زائل کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں زائد ٹھنڈک کم کی جاتی ہے۔نفسیاتی طور پر بھی دیکھیں مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آنے پر انسان پریشان ہوتا ہے اور اذیت محسوس کرتا ہے۔ ’ درد کا دوسر اہم سبب کسی حصے کی نارمل جڑی ہوئی حالت (اتصال) کے درمیان تفریق پیدا ہوجانا ہے‘۔چوٹ لگنے سے ہونے والا درد اس کی عام مثال ہے۔تفرق اتصال صرف جسمانی نہیں ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی ، ذہنی اور قلبی بھی ہو سکتا ہے۔کہا گیا ہے کہ تلواروں سے ہونے والا زخم تو مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان سے ہونے دالا زخم مندمل نہیں ہوتا۔گویا زبان کی چوٹ زیادہ دردناک ہوتی ہے۔ کسی چیز یا شخص سے تعلق خاطر ہو اور وہ جدا ہوجائے تو اس فراق سے بھی درد محسوس ہوتا ہے۔ انسانوں میں پائے جانے والے طبعی اختلاف کی وجہ سے ایک ہی قسم اور شدت کے مرض کے باوجود درد کا احساس کسی کو کم کسی کو زیادہ ہوتاہے۔جسمانی اور نفسیاتی لحاظ سے مضبوط افراد،بدنی ورزش کرنے والے اور درد جھیلنے کے عادی لوگوں کوذکی الحس افراد کی بہ نسبت درد ہلکا معلوم ہوتاہے۔ یہی مشکل ہے کہ کسی اور کو ہونے والے درد کی شدت کا صحیح اندازہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ایسی صورتوں میں مریض کو بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تکلیف کے ساتھ بے توجہی برتی جارہی ہے۔یہ احساس ذہنی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔اس طرح جسمانی اور ذہنی دونوں ہی قسم کا درد جمع ہوجاتا ہے۔جب مریض جسمانی تکلیف کے ساتھ ذہنی یا نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتا ہے تو مجموعی طور سے اسے درد کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب جو لوگ کسی پسندیدہ کاموں میں مصروف ہوتے ہیں یا ان کا ذہن کسی اہم کام میں مشغول ہوتا ہے یا وہ بتکلف اپنے ذہن کو درد کی طرف سے پھیر لینا جانتے ہیں انھیں باوجود مرض کے درد کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات بالکل نہیں ہوتا۔
ایک اچھے طبیب کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ مریض کے درد کی تسکین کے ساتھ ساتھ اصل مرض کی تشخیص کرے۔آج کی تیز رفتار زندگی میں یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ مریضوں کے پاس اصل بیماری کی تشخیص کے لئے وقت نہیں ہوتا۔وہ چاہتے ہیں کہ درد کسی طرح سے کم ہوجائے اور معاشی کام کاج میں لگ جائیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ خود معالجین بھی بہت سے ایسے ہیں کہ مریضوں کی اس مضر نفسیات کے تابع ہوجاتے ہیں۔ میڈیکل اسٹور سے براہ راست درد کی دوائیں خرید کر استعمال کرنااب کوئی حیرت کی بات نہیں رہی۔ Pain Killer اور Steroid دواؤں کی کھپت خطرناک حد تک بڑھی ہوئی ہے۔یہ دوائیں بدن کے ہر حصے پر اپنا برا اثر ڈالتی ہیں۔ قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔ ان دواؤں کی ایسی عادت ہوجاتی ہے کہ پھر دوسری دوائیں اثر انداز نہیں ہوتیں۔غور کیا جائے تو مریض ازخود یا بغیر صحیح طبی رائے کے جن مقاصد کے لئے یہ دوائیں لیتا ہے وہ بھی پورے نہیں ہوپاتے۔فوری آرام کے چکر میں دھیرے دھیرے دواؤں کے سائڈایفیکٹ سے بالآخر طویل مدت بستر پر گزارنا پڑتا ہے۔ایسی سستی دوائیں کئی بڑے طبی اخراجات کا بوجھ بھی سر پر لاد دیتی ہیں۔
طب یونانی میں ایسی کئی تدابیر ہیں جو بغرض علاج مرض اختیار کی جاتی ہیں اور ان سے مرض کے سدباب کے ساتھ ساتھ درد میں بھی فائدہ ہوتا ہے شرط یہ ہے کے اچھے طبیب کی رائے سے کی جائیں۔ ورم کو تحلیل کرنے والی کئی دیسی ادویات و تدابیر ہیں جو نہ صرف مفید ہیں بلکہ محفوظ بھی ہیں۔ادویات کے علاوہ کہیں تقویت کی تدبیر مفید ہوتی ہیں جیسے کچھ اقسام کے سردرد اور بدن دردمیں ۔ کہیں ہاضمہ کہ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً چنداقسام کے پیٹ درد سینے کے درد اور سر درد وغیرہ میں۔ کہیں بدن سے غیر ضروری مادوں کو نکالنے کی تدبیر کرنی ہوتی ہیں مثلاً بہت سارے ہڈیوں اور جوڑوں کے درد، کمر درد، پیٹ درد،وغیرہ میں۔فصد، حجامہ، مالش،اسہال ، قئے ، ادرار جیسی تدابیر اس مقصد سے مستعمل ہیں اور فوری آرام بھی ان سے ہوتا ہے۔کہیں پر صرف سردی یا گرمی پہونچاناکافی ہوتا ہے۔ بہت سے دردوں میں صرف ورزش کی ضرور ت ہوتی ہے۔نفسیاتی علاج ایک اہم ترین اور بھولا ہوا یونانی طریقہء علاج ہے ۔اسے بھی رائج کرنے کی ضرورت ہے۔
http://epaper.humaapdaily.com/news/7/2018-08-17

Friday, 11 May 2018

رمضان کے روزے اور طب یونانی۔


ڈاکٹر محمد یاسر
ایم ڈی (معالجات)
پی ایچ ڈی اسکالر (جامعہ ملیہ اسلامیہ)
کنسلٹنگ فزیشین الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر۔

صیام رمضان کے طبی فوائد پر غور کیا جائے تو کئی اہم نکات ذہن میں آتے ہیں۔ عبادت پر ملنے والے لازوال ثواب کے ساتھ ساتھ یہ ماہ مبارک ہمیں صحت کا ایک گرانقدر عطیہ دے جاتا ہے۔
طبی محققین کہتے ہیں کہ صحت کی حفاظت و امراض کے علاج کے لئے کسی نئی تدبیر پر عمل کرنے اور اسے زندگی میں داخل کرنے سے زیادہ مؤثر یہ ہے کہ جن اعمال سے آدمی گزرتا ہے اسی میں مناسب تبدیلی کے ذریعے حصول صحت کی کوشش کی جائے۔ رمضان کے روزے مسلمانوں پر فرض ہیں۔ ان کو صحیح گزارنے کی فکر کرلی جائے اور چند طبی ہدایات پر عمل کرلیا جائے تو کئی منافع حاصل ہوسکتے ہیں۔ لیکن روزے میں ان طبی فوائد کی نیت کی بجائے رضائے الہی کی نیت کرنی چاہئے۔
شوگر، پریشر، موٹاپا، جوڑوں کے درد، پیٹ کے امراض اور کینسر جیسی لائف اسٹائل بیماریاں ایسی عادات کی وجہ سے ہوتی ہیں جنھیں بدلنا عموماً مشکل ہوتا ہے، خصوصاً کھانے پینے کی عادتیں اور مستقل ذہنی و نفسیاتی تناؤ (جو مسلسل رہنے سےایک طرح کی عادت میں داخل ہوجاتا ہے)۔ ان بیماریوں سے حفاظت کے لئے لائف اسٹائل اور عادتوں میں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مدت روزہ رکھنے کی مشق سے ہمیں ان عادتوں کو کنٹرول کرنا آسان ہوجاتا ہے اور ایک will power ہمارے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔
معاشرے میں افراد کی ایک بڑی تعداد کا ایک ساتھ روزہ رکھنا نفسیاتی طور سے انسان کو اس کے لئے آمادہ کردیتا ہے اور یہ عمل اس پر آسان بھی ہوجاتا ہے۔
امراض کے علاج میں ایک طریقہ علاج بالغذا کا بھی ہے۔ غذاؤں سے علاج کے تین بنیادی طریقے ہیں۔ ترک غذا، تقلیل غذا، کثرت غذا۔
کثرت غذا کی عموماً ضرورت كم ہی پیش آتی ہے۔ بقیہ دو طریقوں پر غور کیاجائے تو اس مہینے میں صبح سے شام تک ترک غذا اور مجموعی طور پر تقلیل غذا کی اچھی مشق ہوجاتی ہے۔
طب یونانی کے محققین کا اتفاق ہے کہ ایک تندرست آدمی کو دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اور زیادہ سے زیادہ  دو مرتبہ کھانا کھانا چاہیے۔ یہ صحت کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہے اور پر خوری کی بیماریوں سے بچانے والا ہے۔
اگر سحر و افطار میں بقدر بھوک ہی کھایا جائے۔ اور غیر رمضان کی مقدار خوراک زبردستی لینے کی کوشش نہ کی جائے تب ہی روزہ کے طبی فوائد کا حصول ممکن ہے۔
صحت مند لوگوں کے لئے سحری میں بیدار ہوتے ہی بہت زیادہ پانی پینا ہاضمہ کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے سے بہتر یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی قسم کا کھانا رکھا جائے۔
اطباء نے کھانے پینے کے سلسلے میں کچھ مفید ہدایات دی ہیں۔
1۔ جن اسباب سے ہضم میں فساد آجاتا ہے وہ یہ ہیں، ایک وقت میں مختلف چیزیں کھائی جائیں، بھاری غذا ہلکی غذا سے پہلے لی جائے،طرح طرح کے کھانے ایک ساتھ کھائے جائیں، کھانے کی مدت اتنی بڑھادی جائے کہ شروع کرنے اور ختم کرنے میں خاصا وقت لگ جائے۔
2۔ کھانا موسم گرما میں ٹھنڈا اور سردی میں گرم ہونا چاہیے۔لیکن اس امر کی رعایت بہرحال ضروری ہے کہ کھانا سردی میں اتنا گرم نہ ہوکہ چولہے سے اترتے ہی کھالیا جائے اور نہ گرمی میں انتہائی ٹھنڈا کھانا کھایا جائے۔ کھانے کے مناسب ترین ٹھنڈے اوقات(صبح اور شام ) ہیں۔(ماہ رمضان میں سحری و افطاری کے اوقات مناسب ہیں۔)
3۔ تازہ پھل غذا کھانے سے پہلے کھالینا چاہیے اور اگر پھل ترش اور دیر ہضم ہوں جیسے انار وغیرہ تو ان کو کھانے کے بعد لینا مناسب ہے۔
4۔ اگر ایک روز ثقیل غذا لی گئی ہو تو اگلے روز ہلکی غذا لینی چاہیے۔
5۔ کھانے سے شکم کو کبھی اتنا پر نہیں کرنا چاہئے کہ معدہ میں تناؤ عارض ہوجائے یا اس میں بھاری پن محسوس ہونے لگے اور سانس میں تنگی ہونے لگے۔
6۔ نہار منہ پانی نہ پیا جائے۔
7۔ دسترخوان پر یعنی کھانے کے دوران پانی بقدر ضرورت ہی پینا چاہئے کیونکہ اس وقت تھوڑا پانی ہی کافی ہوتا ہے۔
8۔ اگر کھانے کے فوراً بعد پئیں تو اسی قدر جس سے کہ پیاس کی تسکین ہوجائے۔
9۔ سیر ہوکر پانی اسی وقت پئیں جب کہ غذا معدہ سے نیچے اتر چکی ہو۔
10۔ کمزور اعصاب کے لوگوں کو اور جن کا ہاضمہ ضعیف ہو ان کو برف سے ٹھنڈا کیا ہوا پانی نہیں پینا چاہیے۔
سحور و افطاری میں ان ہدایات کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ صحت میں بگاڑ پیدا نہ ہونے پائے۔
ذہنی و نفسیاتی صحت کے اعتبار سے یہ مفید ہے کہ جہاں بدن کو غذا کی کمی برداشت کرنی پڑ رہی ہو وہیں ذہن و دماغ کو غیر ضروری اور مضر صحت خیالات سے بھی بچایا جائے۔ اس لحاظ سے یہ ماہ مبارک مفید ترین ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند کے کم ہونےاور بڑھنے سے بدن میں موجود رطوبات پر اسی طرح اثر پڑتا ہے جس طرح سمندر کے پانی میں چاند سے مدو جزر کی شکل میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ روزہ میں قمری یعنی چاند کی تاریخوں کا لحاظ کرتے ہوئےپورے ایک مہینے روزہ رکھنا بدن کے پورے biological rhythm کو درست کرتا ہے۔ اس سے بدن کے تمام ہی افعال پر اچھا اثر پڑتا ہے۔

Wednesday, 9 May 2018

Clinical Research In Unani Medicine has a Valid History

Check out @Unaniphysician’s Tweet: https://twitter.com/Unaniphysician/status/994248449724952576?s=09

Scientific Research in Unani Medicine has a valid History

Check out @Unaniphysician’s Tweet: https://twitter.com/Unaniphysician/status/994247178167209984?s=09

Thursday, 3 May 2018

ھوالشافی۔ علاج کی ابتداء بھی انتہاء بھی۔


✒ڈاکٹر محمد یاسر
ایم ڈی (معالجات)
پی ایچ ڈی اسکالر (جامعہ ملیہ اسلامیہ)
کنسلٹنگ فزیشین الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹر۔

ایک زمانہ تھا کہ ہو الشافی یہ لفظ ہمارے معاشرے میں عام تھا۔ ہر حکیم و ڈاکٹر اس لفظ سے اپنا نسخہ (Prescription) شروع کرتا تھا۔ (اب بھی یہ طریقہ خال خال کہیں کہیں نظر آتا ہے۔ ) ان کا مقصود یہ اشارہ کرنا ہوتا تھا کہ شفاء تو اسی شافیء مطلق کے ہاتھ میں ہے جس نے مرض پیدا کیا جس کی مرضی و اجازت کے بغیر کائنات میں کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ اسی طرح مریضوں کو کہا جاتا تھا کہ دوا کھانے سے پہلے ہوالشافی ضرور کہ لیں۔ مرض سے مکمل چھٹکارا پانے کے لئے شافیء مطلق سے التجا کرتے ہوئے مریض دوائیں استعمال کرتا تھا۔ یہ عادتیں آج بہت کم ہو چکی ہیں۔ مادی ذہنیت غالب آتی جاریی ہے۔ اگرچہ علاج, امراض کے اسباب کے اعتبار سے ہی  ہوتا ہے، سبب کے دور کرنے کی تدابیر کی جائیں تو بیماری ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ ہر مرض میں صحیح سبب کی تشخیص ہوجائے گی اس کا سو فیصدی یقین نہیں ہوتا۔ آج بھی بیشتر امراض میں باوجود ساری جدید تحقیقات کے، ڈاکٹرس غالب گمان کی بنیاد پر ہی تشخیص کرتے ہیں۔ پہلے زمانہ کے وہ حکماء بھی جن کی حذاقت کے قصے مشہور ہیں نبض، بول و براز دیکھ کر اور مریض کا معائنہ کرکے گمان غالب پر ہی تشخیص کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مریضوں میں افاقہ نہ ہونے پر انھوں نے اپنی تشخیص کی غلطی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی غورطلب ہے کہ صحیح تشخیص ہونے کے بعد دوا کی تجویز بھی طویل تجربے کی بنیاد پر اس غالب گمان کے ساتھ ہی دی جاتی ہے کہ دوسروں کی طرح اس مریض میں بھی مفید ہوگی۔ پھر ہمارا مشاہدہ ہے کہ دوا کی افادیت بھی مختلف لوگوں میں کم و بیش ہوتی ہے۔ کچھ افراد میں افادیت کے ساتھ ساتھ مضرت بھی پیش آجاتی ہے۔ بعضوں میں اسی تجربہ شدہ دوا سے بالکل نفع نہیں ہوتا۔
ان ساری صورتوں کی طبی وجوہات کی تلاش و تحقیق ہر زمانے میں جاری رہی ہیں اور طبی محققین اپنے اپنے انداز میں اس سلسلے میں عجز و ماندگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں قطعی علم صرف اللہ جل شانہ کے پاس ہے۔ جس میں سے تھوڑا تھوڑا مختلف افراد کو مختلف زمانوں میں عطا کیا گیا ہے۔
نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر مرض کے لئے دوا ہے اور جب اس مرض کے موافق دوا بدن میں پہونچ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفاء ہو جاتی ہے۔ یہاں ایک فکر، طبی تحقیق کی دی گئی۔ علاج میں مایوسی و ناامیدی سے روکا گیا ہے۔ دوسری اصولی بات بتائی گئی کہ مرض کے بالکل موافق دوا کا پہنچنا ضروری ہے گویا صحت یابی کے لئے یہ اللہ پاک کی سنت ہے۔ کئی احادیث میں نبیء پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور ماہر طبیب سے رجوع کرنے کی ترغیب دی ہے۔
تیسری اہم بات اس میں ایمان سے متعلق ہے کہ سب کچھ ہوجانے کے بعد امر الہی یعنی اللہ کا حکم شفاء بھی ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے ھوالشافی لکھنے اور کہنے کی۔ ایک مسلمان اس حقیقت کا اقرار کرتا ہے کہ شفاء وہیں سے ملے گی اور کہیں سے نہیں۔ چنانچہ سنت پر عمل کے لئے علاج معالجہ کرتے ہوئے رب کائنات سے دعاء کے ذریعہ رابطہ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ مریض کے لئے بھی اور معالج کے لئے بھی۔
اس ذات سے رابطہ کرلینا جو ماوی و ملجا ہے، ہر شئے پر قادر ہے، مخلوقات کے نفع و نقصان اور خیر و شر سے واقف ہے، تقدیر کا جاننے والا ہے، بنی آدم پر انتہائی مہربان او رحم کرنے والا ہے، جس کے خزانہ میں ہر چیز ہے اور جو ہر مصیبت و تنگی میں سہارا ہے، مریضوں میں یہ یقینی کیفیت زبردست اطمینان کا ذریعہ ہے اور امید کا بھی۔ عاجز و بے بس، ناقص العلم و ضعیف انسان کی  تمام تر طبی کوششوں میں ناکامی ہوجائے تو مایوسی سے بچانے کا قوی سبب ہے۔
معالج اگر اس یقین کے ساتھ اپنے امور انجام دے تو اس کے لئے قلبی تقویت و اعتماد کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ بات مستحضر نہ رہے تو علاج میں کامیابی نہ ملنے پر خود طبیب مایوسی کی کیفیت میں گھر جاتا ہے۔ اور اگر کامیابی ملے تو بہتوں کی زبان پر محسوس یا غیر محسوس طور پر خدائی جملے آجاتے ہیں۔ کیا آپ نے کسی ڈاکٹر سے یہ نہیں سنا کہ اس مریض کو ٹھیک کرنا میرے لئے کچھ مشکل نہیں۔ یا میں اسے ٹھیک کردوں گا۔ اس طرح کے جملے ضعیف الخلقت انسان کو زیب نہیں دیتے۔ ایک موقع پر کسی شخص نے علاج کرنے کی اجازت چاہتے ہوئے کہا کہ حضور اس مریض کا علاج مجھے کرنے دیجئے کہ میں طبیب ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا تم رفیق ہو طبیب اللہ ہی ہیں۔ اس طرح معالجین کے ذہن کو اللہ کی طرف متوجہ کیا گیا۔ چنانچہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اطباء و معالجین اپنے نسخوں کی ابتداء بجائے Rx کے  اسی لفظ ہوالشافی سے کریں تاکہ ذہن و قلب سے یہ بات محو نہ ہونے پائے کہ شافیء مطلق اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے لئے مختصر لفظ 'ھو' کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ غالباً یہ بھی اشارہ کے لئے کافی ہے.

Tuesday, 1 May 2018

AlHakeem Unani Medicare center Video Channel

AlHakeem is an standard healthcare center for patients seeking hope of cure through safe and effective Unani Medicine.
please spread this link as much as possible for public awareness of potentials in Unani medicine so that needy patients get benefits.
Like & Subscribe our channel.

https://www.youtube.com/channel/UCFdVkJUsa91tGqz5016NCEQ

Thursday, 8 March 2018

مریضوں اور معذوروں کی باز آباد کاری (Rehabilitation) : ایک لمحہء فکریہ


✒ *ڈاکٹر محمد یاسر*
ایم ڈی (معالجات)
کنسلٹنگ فزیشین
الحکیم یونانی میڈی کیئر سینٹرممبئی۔
yasirm7@gmail.com

ہمارے سماج میں جہاں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہیں ایسے لوگوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے جومختلف بدنی اعذار کی وجہ سے بہت سے روزمرہ کے کام کرنے سے قاصر ہیں۔جو افراد پیدائشی معذورہیں ان کے مسائل تو ہیں ہی لیکن یہاں زیادہ تر ان مریض افراد سے بحث ہے جو مختلف دماغی ، اعصابی، عضلاتی، ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماریوں اور حادثات کے نتیجے میں معذور (Disable) ہورہے ہیں۔ مساجد میں کرسیوں کے اضافے،بڑے شہروں میں لفٹ کا بکثرت استعمال اور وہیل چیئر کا روز افزوں کاروبار اس کی چند مثالیں ہیں جو عام مشاہدے میں ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ا ٹھنے بیٹھنے میں انتہائی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔بہت سوں کے لئے چلنا پھرنا دشوار ہے۔کمر اور گردن کے اعذار سے پریشان ہونے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ذہنی الجھنیں بہتوں میں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ وہ اپنے روٹین کاموں کو صحیح طور سے کرنے پرقادر نہیں ہیں۔ کسی عارضہ کے سبب قوت سماعت(Hearing)، قوت بصارت(Vision) یا قوت گویائی (Speech) کا متاثر ہوجانااچھے بھلے انسان کو دوسروں کا محتاج بنادیتاہے۔ اس قسم کے اعذار بچوں کو ہوجائیں تو والدین کے لئے ایک بھاری مصیبت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کے مستقبل کی فکر انھیں رات دن بے چین کئے رہتی ہے۔ والدین کے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والے خود سہارے کے محتاج بن جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان سب اعذار میں کم و بیش مریض یامعذور شخص اگرچہ خود متاثر ہوتا ہی ہے ساتھ میں اس کا خاندا ن بھی متاثر ہوتا ہے ۔ خاندان کی افرادی قوتیں اور اوقات کے علاوہ خاصا مال اس پر صرف ہوتا ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سماج کے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ تمام متعلقین ایک ذہنی کوفت میں رہتے ہیں۔ مذکورہ مسائل کی وجہ سے ایسے اعذار کا سد باب نہایت ضروری کام ہے۔

ان سب مسائل کے ساتھ یہ بھی سوچئے کہ رب کائنات کی یہ بدنی نعمتیں کتنی عظیم ہیں جن کا فقدان بیک وقت دسیوں افرادکے لئے جانی و مالی پریشانیوں کا باعث ہے۔اس حکیم و بصیر کی مشیتوں کو کون جانتا ہے جس نے ایک عذر کے ذریعے کسی کی مغفرت کا ، تو کسی کے درجات کی بلندی کا سامان کردیا۔کسی کوروزگار کا ذریعہ مہیا کیا تو کسی کو شکران نعمت کا احساس دلادیا۔ کسی کو خدمت خلق کا موقع عنایت کیا تو کسی کوتحقیق و جستجو کی راہ دی۔چنانچہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ایسے سماجی مسائل ہیں جن کا تعلق صرف کسی ایک فرد سے نہیں ہے بلکہ ہم سبھی کو مل کر ان مسائل کے سلجھانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس میں ہمارا دنیوی فائدہ بھی ہے اور اخروی بھی۔ ایسے تمام طبی اعذار (Disabilities) کو دور کرنے کی کوششیں کرنا باز آباد کاری (Rehabilitation) کہلاتا ہے۔

معذوروں کی جسمانی، سماجی اور نفسیاتی قوتوں کو اس حد تک بحال کرنا کہ وہ کسی کی احتیاج کے بغیر اپنے ضروری کاموں پر قادر ہوجائیں، وہ اگر اپنے خاندان کے ذمہ دار ہیں توکسب معاش کرسکیں، بچے ہوں تو علم و فن کی تحصیل کرسکیں اور عورتیں ہوں تو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت پیدا کرلیں اس طرح کہ ان تمام کاموں میں انھیں معاشرتی تفریق محسوس نہ ہو ، یہ باز آبادکاری کے اہم مقاصد ہیں۔

یہ مفید عمل کئی شعبوں کے افراد کے اشتراک سے مختلف مرحلوں میں انجام دیا جاتا ہے۔ مریض/معذور کے لئے تدابیر ، دوائیں ، ذہن سازی (Counselling) و حوصلہ افزائی اور مناسب تعلیم (Education) و تربیت (Training) کرنا ضروری ہے۔ سماجی سطح پرایسے افراد اور ملی و سماجی تنظیموں کی ضرورت ہے جو متاثرین کو تلاش کرکے باز آباد کاری کے ان مقاصد میں مکمل تعاون کریں اور عوام کو ان اعذار کے تدارک کی واقفیت دیں ۔ ایک صحت مند اور صالح معاشرے کا تصور ان کاموں کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر مسلمانوں کو اس شعبے کی ہدایات بھی بکثرت دی گئی ہیں۔ یہ مشہور فرمان ہے۔

خیر الناس من ینفع الناس (لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ نفع پہونچائے۔)

مغربی ممالک میں باوجود دیگر معاشرتی خرابیوں کے اس طرح کی سہولیات موجود ہوتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔اس کام کے لئے ایسے طبی اداروں کی ضرورت بھی ہوتی ہے جہاں اعذار کی صحیح تشخیص و علاج ہو، مختلف ضروری تدابیر، عملی ٹریننگ اور ایجوکیشن دی جاسکے۔ساتھ ہی بہتر سے بہتر حل مہیا کرنے کے لئے مسلسل تحقیقات بھی ہوں۔مختلف شعبوں کے ماہر اطباء کے ساتھ فزیوتھیراپی، ووکیشنل یا آکیو پیشنل تھیراپی بھی مفید ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں یہ واضح کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ بازآباد کاری کے عمل میں صدیوں کے تجربات رکھنے والی طب یونانی کی اثر انگیز حکیمانہ تدابیرکے ذریعے بہت سے اعذار کا کم خرچ بالا نشیں حل موجود ہے۔ طب یونانی کے ایک قومی سطح کے ادارے میں تحقیقی انداز میں اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس قدیم طرز علاج کوبعینہٖ اپناتے ہوئے جدید طب کے طریقوں سے موازنہ بھی کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سینکڑوں افراد جو مختلف بیماریوں مثلاً فالج، ریڑھ کی ہڈی کے عوارضات، حادثات سے ہونے والے اعذار، عضلاتی اور اعصابی نقائص اور علاجی غلطیوں کے نتیجے میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے ، اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔ دماغی معذورین نے دوبارہ ذہنی توانائی حاصل کی، جوڑوں کے عوارضات سے جنہوں نے امید کھو دی تھی ،پہلے کی طرح اپنے جوڑوں کی صحت حاصل کی، جن کی قوت گویائی مفقود ہو گئی تھی وہ بولنے لگے۔ بہت سے اعذار میں یونانی علاج رائج الوقت جدید علاجی طریقے سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوا۔ ان کامیابیوں کی خبریں عام ہوئیں تو ملک و بیرون ملک سے مریض علاج کے لئے پہونچنے لگے ہیں۔ طب جدید کے ماہرین بھی اب ایسے مریضوں کو وہاں ریفر کرنے لگے ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو طب یونانی کی ایسی افادیت کی معلومات ہو اور ان کا اس طب پر اعتماد بحال ہو جو اپنی قدامت اور عوامی ہونے کی وجہ سے غیر مفید سمجھی جانے لگی ہے۔

بازآباد کاری کے جدید طریقوں کے ساتھ طب یونانی کو ترجیحی طور پر شامل کرلیا جائے تو امید ہے کہ محفوظ طریقے سے کم وقت اور مال صرف کرکے زیادہ بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں اوران سماجی مسائل کا تدارک محدود وسائل سے بآسانی ہو سکتا ہے۔
http://epaper.humaapdaily.com/news/7/2018-03-09